پاکستان اور انڈیا کے بیچ پھنسی دو بےوطن بہنوں کی کہانی، جنھوں نے انڈین شہری بننے کے لیے پاکستانی شہریت چھوڑی

انڈیا میں مقیم شہریت حاصل کرنے کی خواہشمند دو پاکستانی بہنوں کو اس (شہریت) کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اُن کے پاس پاکستانی شہریت چھوڑنے کے سرٹیفکٹ نہیں ہیں۔
2017 میں دونوں پاکستانی بہنوں نے اپنے پاسپورٹ پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے کر دیے تھے
Rasheeda Bano
2017 میں دونوں پاکستانی بہنوں نے اپنے پاسپورٹ پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے کر دیے تھے

انڈیا میں مقیم شہریت حاصل کرنے کی خواہشمند دو پاکستانی بہنوں کو اس (شہریت) کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اُن کے پاس پاکستانی شہریت چھوڑنے کے سرٹیفکٹ نہیں ہیں۔

ان بہنوں کے اہلخانہ نے عدالت کو بتایا کہ دونوں بہنیں سنہ 2008 سے انڈیا کی ریاست کیرالہ میں رہ رہی ہیں اور انھوں نے 2017 میں اپنے پاسپورٹ انڈیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے (سرینڈر) کر دیے تھے۔

پاکستان میں سرکاری طور پر شہریت ترک کرنے کے لیے کم سے کم عمر 21 سال ہے اور جب ان دونوں بہنوں نے شہریت ترک کی تو اُن کی عمر اس مقررہ عمر سے کم تھی، اس لیے پاکستانی ہائی کمیشن نے انھیں شہریت کے خاتمے کے سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیے تھے۔

درخواست گزار بہنوں کی والدہ رشیدہ بانو کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کے 21 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد دوبارہ ہائی کمیشن سے رجوع کیا لیکن ہائی کمیشن نے بغیر کوئی وجہ بتائے سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ اور اُن کا بیٹا اب انڈین شہری ہیں اور اُن کی بیٹیوں کے پاس انڈیا یا پاکستانی کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس صورتحال نے اُن کی بیٹیوں کی زندگیوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے، کیونکہ اب وہ پاکستانی پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کی بھی اہل نہیں ہیں۔

بی بی سی نے انڈیا میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدہ تعلقات عموماً منقسم خاندانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

گذشتہ چند دہائیوں سے یہ عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دستاویزات کی بہت سخت جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ انڈین حکومت کی جانب سے پارلیمان میں رکھے گئے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2021 تک، سات ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی انڈین شہریت کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔

پاکستانی ہائی کمیشن نے سنہ 2017 میں دونوں بہنوں کو پاسپورٹ واپس کرنے پر ایک رسید دی تھی
Rasheeda Bano
پاکستانی ہائی کمیشن نے سنہ 2017 میں دونوں بہنوں کو پاسپورٹ واپس کرنے پر ایک رسید دی تھی

ان بہنوں کے پاس انڈیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے سنہ 2018 میں دی گئی ایک رسید ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے پاسپورٹ واپس کر دیے ہیں اور اگر انھیں انڈین شہریت دی جاتی ہے تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن انڈین حکام نے اسے ترکِ شہریت سرٹیفکیٹ کے طور پر قبول نہیں کیا اور مجبوراً اس خاندان کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔

گذشتہ سال کیرالہ ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے اُن کے حق میں فیصلہ سُنایا، اور کہا کہ یہ واضح ہے کہ درخواست گزار مطلوبہ دستاویز پیش نہیں کر سکیں گی۔

عدالت نے انڈین حکومت کو انھیں شہریت دینے کا حکم دیا تھا۔

لیکن وفاقی وزارت داخلہ نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور 23 اگست کو اسی عدالت کے دو ججوں پر مشتمل بینچ نے ابتدائی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

ان بہنوں کے پاس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق ہے۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق 21 سال سے کم عمر افراد اپنی شہریت کو آزادانہ طور پر ترک نہیں کر سکتے لیکن ان کا نام والد کی طرف سے دائر کی گئی شہریت ترک کرنے کی درخواست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

بہنوں کے والد محمد معروف کیرالہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن اُن کے والد کی وفات کے بعد دادی نے انھیں گود لیا اور سنہ 1977 وہ اپنے دادای کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔

اُن کی والدہ بانو کے مطابق ان لڑکیوں کے والدین انڈین شہری تھے، لیکن وہ 1971 میں رشتہ داروں سے ملنے پاکستان گئے تھے اور جنگ کی وجہ سے سرحدیں بند ہونے کے سبب وہیں پھنس گئے۔

انھوں نے بتایا کہ جب کئی مہینے تک وہ واپس انڈیا نہ آ سکے تو انھوں نے پاکستانی شہریت کے لیے درخواست دینا آسان سمجھا اور وہیں رہ گئے جہاں یہ دونوں بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

انڈیا اور پاکستان کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں جس کا اثر شہریت کے حصول جیسے معاملات پر بھی پڑتا ہے
AFP via Getty Images
انڈیا اور پاکستان کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں جس کا اثر شہریت کے حصول جیسے معاملات پر بھی پڑتا ہے

ان بہنوں کے والدین بانو اور معروف سنہ2008 میں طویل مدتی ویزے پر انڈیا واپس آ گئےلیکن معروف انڈیا کے ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہوئے اور جلد ہی پاکستان واپس چلے گئے۔

بانو اور ان کے بیٹے کو، جن کی عمر 21 سال سے زیادہ تھی، انڈین شہریت مل گئی۔

لڑکیوں کی والدہ کا کہنا ہے کہ انڈیا میں پاکستانی دستاویزات یعنی پاسپورٹ کو شناخت کے لیے استعمال کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی بیٹیوں کے پاس اب پاسپورٹ بھی نہیں ہے۔

اس سے اُن کی معمول کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ شناختی دستاویز کے بغیر موبائل کنکشن یعنی سِم حاصل کرنا یا بچوں کا سکول میں داخلہ کروانے جیسے معمولی کام بھی مشکل ہو جاتے ہیں۔

انڈین حکام نے انھیں آدھار کارڈ بنانے کی اجازت دی ہے جو انڈیا میں شناختی دستاویز کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اسے شہریت کا ثبوت نہیں مانا جاتا۔

لیکن یہ ایک عارضی اور محدود حل تھا۔

والدہ بانو کہتی ہیں کہ پاسپورٹ نہ ہونے سے ان کی بیٹیوں کی زندگیاں بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک کے شوہر کو خلیجممالک میں اپنی نوکری چھوڑ کر انڈیاآنا پڑا کیونکہ وہ اس کے پاس نہیں جا سکتی تھیں جبکہ دوسری بیٹی ایک بیمار بچے کی ماں ہیں جسے بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے، لیکن شناختی دستاویز نہ ہونے کے باعث وہ انڈیا سے باہر نہیں جا سکتی ہیں۔

ان کے وکیل ایم سسیندرن کہتے ہیں کہ ’بہنوں کو 2017 میں سرٹیفکیٹ نہیں ملا کیونکہ وہ اس وقت نابالغ تھیں۔ اب جب کہ وہ بالغ ہو چکی ہیں، وہ پاکستان واپس نہیں جا سکتیں کیونکہ انھوں نے اپنے پاسپورٹ سرینڈر کر دیے ہیں۔ تو پھر انھیں سرٹیفکیٹ کیسے ملے گا؟‘

’وہ اب بُری طرح پھنس گئی ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US