بہت سے صارفین اس پروگرام پر تنقید کر رہے ہیں اور اسے غیر اخلاقی سمجھتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ اسے ذہن میں برا سمجھنے کے باوجود اس پروگرام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
انتباہ: اس رپورٹ میں خودکُشی کے واقعات سے متعلق تفصیلات موجود ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں خودکشی کے بارے میں خیالات آتے ہیں تو مستند ڈاکٹر سے فوراً رابطہ کریں۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوں مگر آپ نے ریئلٹی شو ’ایٹرنل لوو‘ (عشق ابدی) کا نام نہ سُنا ہو۔
یہ پروگرام یوٹیوب پر نشر ہوتا ہے، جس کو ترکی کی ایک انٹرٹینمنٹ کمپنی نے تیار کیا ہے۔ یہ انٹرٹینمنٹ کمپنی اس سے قبل اِسی نوعیت کے پروگرام ترکی اور عربی زبانوں میں بھی تیار اور نشر کر چکی ہے۔
اوراب اس شو کو ایرانی فنکاروں کے ساتھ فارسی زبان بھی فلمایا گیا ہے اور شوبز سے وابستہ ماہرین اسے فارسی زبان کی ٹیلی ویژن پروگرامنگ کا ’نیا باب‘ قرار دے رہے ہیں۔
اس شو کی ریکارڈنگ ایران کے بجائے ترکی میں کی گئی جس میں شرکت کے لیے کچھ فنکار ایران سے آئے جبکہ چند ایسے ایرانی فنکار ہیں جو پہلے ہی ترکی میں مقیم ہیں۔ شو کی پہلی سیریز کی میزبانی سابق ایرانی فلمی اداکار پارستو صالحی نے کی تھی۔
یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے انڈین ٹی وی پر نشر پونے والی ’بِگ باس سیریز‘۔
’عشق ابدی‘ میں نوجوان مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک گروہ دن رات ایک وِلا میں اکٹھا رہتا ہے، تاکہ وہ بتائے گئے عرصے میں ناصرف اپنی ’محبت‘ تلاش کر سکیں بلکہ پروگرام کے اختتام تک اس محبت کو قائم بھی رکھ سکیں۔
شو میں شریک ایسے افراد جو محبت نہیں ڈھونڈ پاتے یا کسی کے ساتھ جوڑا نہیں بنا پاتے، اُنھیں ووٹوں کی بنیاد پر شو سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ اور جو جوڑا شو کے اختتام تک ساتھ رہتا ہے، اُسے کامیاب قرار دیتے ہوئے 30 ہزار ڈالرز کا بڑا انعام ملتا ہے۔
شو میں شریک تمام افراد کی 24 گھنٹوں کی حرکات و سکنات کیمروں میں محفوظ ہوتی ہیں، اور اسی طرح اُن کی گفتگو بھی۔ مائیکروفون تمام شرکا سے منسلک ہوتے ہیں جبکہ ولا میں نصب فکسڈ کیمرے اور ویڈیو گرافر اس چار دیواری میں ہونے والی ہر چیز کو ریکارڈ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے معاشرے کے کچھ حصوں نے غیر ازدواجی تعلقات اور بوائے فرینڈ/گرل فرینڈ رکھنے جیسے معاملات کو قبول نہیں کیا۔ ماضی میں ایرانی حکومت کی جانب سے یوٹیوب کے شوز جیسا کہ ’بلائنڈ ڈیٹ‘ پرسخت کریک ڈاؤن اس کا ثبوت ہیں۔
لیکن دوسری طرف ’عشق ابدی‘ جیسا شو ہے جس میں شرکا نہ صرف ایک دوسرے کو چھوتے اور چومتے ہیں بلکہ ہر شخص کو اپنا ساتھی یا پارٹنر تبدیل کرنے تک کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ تمام معاملات ایران میں سخت ممنوع ہیں اور اسی لیے اس شو کو لے کر سوشل میڈیا پر آئے روز بحث ہوتی ہے۔
بہت سے صارفین اس پروگرام پر تنقید کرتے ہیں اور اسے ’غیر اخلاقی‘ قرار دیتے ہیں تاہم بہت سے ایسے بھی ہیں جو اسے بُرا سمجھنے کے باوجود اس پروگرام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
یہ شو کچھ حد تک برطانوی آئی ٹی وی شو ’لوو آئی لینڈ‘ سے ملتا جلتا ہے، جس کے 11 سیزن نشر ہوئے۔ یہ برطانوی شو سپین کے ایک ولا میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس میں ایتھلیٹس جیسا قد و قامت رکھنے والے شرکا ہوتے ہیں۔ اس نے گذشتہ برسوں میں مقبولیت حاصل کی اور اسے دوسری زبانوں میں بھی تیار کیا گیا۔
یہ پروگرام اتنے مقبول کیوں ہیں اور شرکا کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟
گو کہ ان شوز کا بیان کردہ ہدف ’محبت‘ کی تلاش ہے لیکن اس میں پرتعیش ماحول، شوخ اور چنچل حسینائیں ناظرین کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔ برطانیہ میں اِن شوز میں ہونے والے معاملات کو اخبارات کے صفحہ اول میں بھی جگہ ملتی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ان شوز میں ایسے شرکا کو منتخب کیا جاتا ہے، جو جسمانی طور پر پُرکشش ہوں اور تنازعات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگرچہ کوئی بھی ان پروگراموں میں شرکت کے لیے درخواست دے سکتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کا انتخاب سوشل میڈیا کی مدد سے پروگرام پروڈیوسرز کرتے ہیں۔
لیکن وہ شہرت جو شرکا کو مختصر وقت میں حاصل ہوتی ہے وہ اُن کے انسٹاگرام اکاؤنٹس پر لاکھوں فالوورز اور اشتہارات سے ہونے والی آمدن کی صورت میں جاری رہتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں آن لائن نفرت انگیز تبصروں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جب اس نوعیت کے پروگرامز ختم ہونے کے بعد شرکا ایک دوسرے کو عدالت میں لے گئے۔
ڈیٹنگ پروگراموں میں شرکت کرنے والوں کی خودکشی اور موت
سنہ 2010 کی دہائی میں امریکی شو ’دی بیچلر‘ میں نظر آنے والے شرکا نے شو ختم ہونے کے فوراً بعد خودکشی کر لی تھی۔ بعدازاں بہت سے معاملات میں یہ کہا گیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھے۔
سنہ 2018میں ’لوو آئی لینڈ‘ میں شریک سوفی گورڈن نے شو چھوڑنے کے دو سال بعد اپنی جان لے لی۔ 20 دن بعد اُن کے پارٹنر نے بھی خودکشی کر لی۔
سوفی گورڈن کی ڈپریشن کی تاریخ تھی اور بعدازاں پتہ چلا کہ موت سے قبل انھوں نے الکوحل اور کوکین کا استعمال کیا تھا۔
سوفی گورڈن کے ساتھیوں میں سے کچھ نے کہا تھا کہ شو ختم ہونے کے بعد انھیں مناسب مشاورت نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ شو کے ختم ہونے کے بعد شہرت کو پہنچنے والے اچانک نقصان سے نمٹنا مشکل تھا اور یہ ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔
سوفی اور ان کے ساتھی کی موت کے بعد ’لوو آئی لینڈ‘ کے شرکا میں خودکشی کی کوشش کے واقعات جاری رہے جس کے باعث پروڈیوسرز نے ضروری سمجھا کہ وہ شو کے شرکا کی ذہنی صحت پر کام کریں۔
’لوو آئی لینڈ‘ نے اعلان کیا کہ سنہ 2023 کے بعد سے شرکا کو پروگرام میں شامل ہونے سے پہلے باہمی احترام اور جارحانہ زبان کو کنٹرول کرنے کی تربیت دی جائے گی۔
’لوو آئی لینڈ‘ کے شرکاء کو پروگرام کے ختم ہونے کے بعد نفسیاتی مشاورت کے کم از کم آٹھ سیشن بھی ملتے ہیں تاکہ پروگرام ختم ہونے کے بعد انھیں اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے میں مدد ملے۔
آن لائن حملوں سے ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے، شرکا کو پروگرام کے اختتام تک اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
’عشق ابدی‘ کے معاملے میں کچھ مقابلہ کرنے والوں اور شو کے میزبان کی طرف سے کیے گئے تبصرے جو روایتی صنفی کرداروں کی توثیق اور تعریف کرتے ہیں، کئی بار تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شو میں جنس پرست، بدسلوکی اور نسل پرستانہ خیالات کو چیلنج کیے بغیر پیش کیا گیا ہے۔
حال ہی میں، کچھ مغربی ڈیٹنگ شوز نے ایسے شرکا کا انتخاب کیا ہے جنھیں عام طور پر تفریحی اور ڈیٹنگ ٹیلی ویژن شوز کے لیے نہیں چُنا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں ڈیٹنگ ایپ ’Married at First Sight‘ نے ایسے شرکا کا انتخاب کیا ہے جو موٹے ہیں، جسمانی معذوری کا شکار ہیں یا LGBT کمیونٹی سے ہیں۔
پروگرام کے دوران ان لوگوں کو اپنے جیسے لوگوں کے چیلنجز کو واضح کرنے اور اپنے مسائل سے آگاہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
بعض اوقات یہ شخصیات ان پروگراموں میں مشہور ہونے کے بعد اپنی سماجی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں۔
ایران میں گذشتہ کئی برسوں سے غیر ملکی ورژن سے نقل کیے گئے رئیلٹی شوز نشر ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ مختلف ٹیلنٹ مقابلے ’بریڈیم شام ایرانی‘ اور ’جوکر‘۔ ان میں سے بہت سے پروگرام ناظرین میں بہت مقبول ہوئے۔
لیکن خواتین کے حوالے سے حکومت کی پالیسیاں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے جذباتی رشتے ڈیٹنگ ایپس بنانے کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔