جے شنکر کی چین میں غیرموجودگی: کیا مودی بیجنگ کی ناراضی کے سبب اپنے وزیرِ خارجہ کو انڈیا میں چھوڑ گئے؟

ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ مودی کسی غیرملکی دورے پر ہوں اور جے شنکر ان کے ہمراہ نہ نظر آئیں۔ لیکن اس بار ایسا ہوا ہے۔ نریندر مودی 29 اگست سے یکم ستمبر تک جاپان اور چین کے دورے پر گئے اور اس موقع پر جے شنکر ان کے ساتھ نہیں تھے۔
جےشنکر
Getty Images

جب 2019 میں ایس جے شنکر انڈیا کے وزیرِ خارجہ بنے تو ایک پیغام ہر طرف گیا کہ نریندر مودی انھیں خاص اہمیت دیتے ہیں۔

گذشتہ سات برس میں جے شنکر انڈیا کی خارجہ پالیسی کے اگلے محاذ پر ہی رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک سے باہر نریندر مودی کے نام کو ایک برانڈ بنانے میں میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ مودی کسی غیرملکی دورے پر ہوں اور جے شنکر ان کے ہمراہ نہ نظر آئیں۔ لیکن اس بار ایسا ہوا ہے جب نریندر مودی 29 اگست سے یکم ستمبر تک جاپان اور چین کے دورے پر گئے اور اس موقع پر جے شنکر ان کے ساتھ نہیں تھے۔

ماضی میں جے شنکر جاپان اور چین دونوں ہی ممالک میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ سنہ 2009 سے 2013 تک جے شنکر چین میں انڈیا کے سفیر تھے اور اس سے قبل وہ سنہ 1996 میں جاپان میں بطور نائب سفیر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

انڈیا میں لوگ سوشل میڈیا پر سوال کر رہے ہیں کہ جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ کیوں نہیں گئے؟

انڈیا ٹوڈے کی ایگزیکٹو ایڈیٹر گیتا موہن نے 31 اگست کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’وزیرِ خارجہ چین کے دورے پر وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی غیر ملکی دورے پر جے شنکر وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ نہیں جا رہے۔‘

مودی
Getty Images

تاہم انڈیا کی وزارتِ خارجہ نے سرکاری طور پر جےشنکر کی صحت کے بارے میں کوئی بیان نہیں جاری کیا۔ اس دوران جے شنکر کی لوگوں سے ملاقاتوں کی تصاویر اور فنِ لینڈ کے وزیرِ خارجہ سے ٹیلی فونک گفتگو کی تصاویر بھی جے شنکر کے ایک ایکس اکاؤنٹ سے منظرِ عام پر آتی رہیں۔

جے شنکر کی عدم موجودگی پر اُٹھنے والے سوالات

اننتا سینٹر نامی تھنک ٹینک کی سی ای او اندرانی باغچی کہتی ہیں کہ ایس سی او کے اجلاس میں جے شنکر کی غیرموجودگی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے ’لیکن میرا خیال ہے کہ اس کا کوئی مطلب نکالنا فی الحال قبل ازوقت ہوگا۔‘

وہ کہتی ہیں: ’میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے لیکن یہ اطلاعات بالکل درست نہیں ہیں۔ اچھا ہوتا کہ وزارتِ خارجہ اس حوالے سے کوئی بیان جاری کر دیتی۔‘

’ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں لوگوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کا وزیرِ خارجہ جاپان اور چین کے دورے پر وزیرِ اعظم کے ساتھ کیوں نہیں تھا۔ جہاں تک جےشنکر کے چین سے متعلق نقطہ نظر کا تعلق ہے تو وہ انڈیا کے نقطہ نظر سے مختلف نہیں ہے۔‘

یاد رہے کہ جے شنکر نے 14 جولائی کو چین کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد 18 اگست کو چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے نئی دہلی کا دورہ بھی کیا تھا۔

اس ملاقات میں جے شنکر نے کہا تھا کہ انڈیا کثیرالاقوامی دنیا کا ہی متمنی نہیں ہے بلکہ وہ کثیرالاقوامی ایشیا بھی چاہتا ہے۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ جےشنکر کہہ رہے تھے کہ وہ دنیا یا ایشیا میں کسی بھی ایک ملک کی بالادستی نہیں چاہتے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چینی وزیرِ خارجہ کے سامنے وہ ایشیا میں چین کی بالادستی کو مسترد کر رہے تھے۔

گذشتہ برس اگست میں جے شنکر نے کہا تھا کہ ’چین سب کے لیے ہی ایک مسئلہ ہے۔ ہم دنیا کے واحد ملک نہیں ہیں جو چین پر بحث کر رہے ہیں۔ آپ یورپ جائیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ اقتصادی اور قومی سلامتی کے موضوعات پر گفتگو کے دوران چین پر بات کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ امریکہ میں دیکھیں تو وہاں بھی چین بحث کا حصہ ہے۔‘

گلوبل ٹائمز میں جے شنکر کے بیان پر تنقید

جے شنکر کے اس بیان پر چینی میڈیا نے بہت تنقید کی تھی۔ گلوبل ٹائمز کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا ’ماؤتھ پیس‘ یعنی ترجمان کہلاتا ہے۔

گذشتہ برس 9 ستمبر کو گلوبل ٹائمنز نے ’انڈیا کی سفارتکاری کو لاحق جے شنکر کا مسئلہ‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل شائع کیا تھا۔

اس مضمون میں لکھا تھا کہ: ’جے شنکر چین اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری سے ڈرتے ہیں۔ ایک طرف اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں ان کی سفارتی حکمت عملی ٹھیک نہیں رہی ہے۔ دوسری جانب وہ امریکہ کو خوش کرنے میں مگن ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی تمام تر توجہ چین پر ہے اور انڈیا اورچین کے تعلقات میں بہتری سے امریکہ ناراض ہوگا۔‘

جے شنکر چین کی بے چینی کی وجہ؟

گلوبل ٹائمز کے اس مضمون کو چین کی بے چینی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

اندرانی باغچی کہتی ہیں کہ ’جے شنکر جو بولتے ہیں یا جو کرتے ہیں وہ انڈیا کی موجودہ حکومت کی پالیسی ہی ہے۔ اگر جے شنکر نے چینی وزیرِ خارجہ کو کہا کہ انڈیا کثیر الاقوامی ایشیا چاہتا ہے تو یہ جےشنکر کا نقطہ نظر نہیں ہے بلکہ انڈین حکومت کی پالیسی ہے۔‘

جےشنکر
Getty Images

دہلی کی ایک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’گذشتہ کچھ برسوں میں جے شنکر نے انڈیا کی پالیسی کو امریکہ پر مرکوز کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی امریکہ نے انڈیا کو صدمہ دیا، یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ اپنے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں اور جب یہ ٹوکری گرتی ہے تو تمام انڈے ٹوٹ جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اب جب انڈیا کی خارجہ پالیسی کا رُخ تبدیل کیا جا رہا ہے تو جےشنکر کو ان تمام معاملات سے علیحدہ رکھا جا رہا ہے۔‘

سابق وزیرِ خارجہ سلمان خورشید سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ: ’غیرجانبداری کی پالیسی انڈیا کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے اور مودی حکومت نے اسے نظر انداز کیا ہے۔‘

’ہم مکمل طور پر امریکہ کی طرف چلے گئے لیکن پھر بھی ٹرمپ نے ہم پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا۔‘

انڈیا کی خارجہ پالیسی پر اُٹھنے والے سوالات

ایس سی او کے اجلاس میں جے شنکر کی عدم موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سلمان خورشید کا کہنا تھا کہ ’ایسے بڑے موقع پر عام طور پر وزیرِ خارجہ وزیرِ اعظم کے ساتھ ہوتا ہے۔‘

’یہ میرے لیے بھی حیران کُن ہے کہ وزیرِ خارجہ وہاں نہیں تھا۔ ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ ہمارے وزیرِ خارجہ وزیرِ اعظم کے ساتھ کیوں نہیں تھے۔‘

آبزرور ریسرچ فاونڈیشن سے منسلک پروفیسر ہرش پنت سے پوچھا گیا کہ امریکہ کے ساتھ معاملات سلجھانے میں ناکامی کیا جے شنکر کی ایس سی او میں عدم موجودگی کی وجہ ہو سکتی ہے؟

انھوں نے جواب دیا کہ ’ایسی صورتحال میں دنیا کے کسی بھی وزیرِ خارجہ کو ناکام قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر انڈیا ٹرمپ کے سامنے گڑگڑاتا تو اس پر 50 فیصد ٹیرف نہیں عائد ہوتا، ایسا یورپ نے بھی کیا تھا۔‘

’لیکن انڈیا نے امریکہ کے سامنے سر نہیں جھکایا، انڈیا نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی کے کہنے پر روس کے ساتھ تجارت نہیں ختم کرے گا۔‘

’مجھے نہیں لگتا کہ جےشنکر نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر امریکہ پر مرکوز کر رکھا تھا اور انڈیا کچھ اور چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ جے شنکر کی چین میں عدم موجودگی کا کوئی مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔‘

انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل کا اس حوالے سے کہا ہے کہ ’یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ جے شنکر نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کو امریکہ پر مرکوز کر رکھا تھا اور اسی لیے مودی انھیں چین لے کر نہیں گئے۔‘

’جے شنکر خود خارجہ پالیسی نہیں چلا رہے بلکہ وہ انڈیا کے وزیرِ اعظم کی قیادت میں کام کر رہے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US