چین میں ہونے والی فوجی پریڈ، جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے والے لگ بھگ تمام سربراہان مملکت نے شرکت کی، سے وزیر اعظم مودی غائب تھے۔ اس حوالے سے بہت سے چہ میگوئیاں بھی ہوئیں اور تجزیے اور تبصرے بھی کیے گئے۔ بی بی سی نے بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین سے بات کر کے اس فیصلے کے پیچھے کارفرما وجوہات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔
چین میں ہونے والی فوجی پریڈ میں وزیر اعظم مودی کی عدم موجودگی نے چہ میگوئیوں کو جنم دیا ہے چین نے گذشتہ روز (تین ستمبر) ’وکٹری ڈے پریڈ‘ میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا، جس میں فوجی پریڈ کے ساتھ کئی نئے، جدید اور بڑے ہتھیاروں کی بھی نمائش کی گئی۔
یہ پریڈ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی تھی۔
تاہم اس فوجی پریڈ کے دوران سب سے زیادہ توجہ چینی صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ پر رہی جو پہلی مرتبہ کسی تقریب میں اکٹھے نظر آئے۔ اِن تین مرکزی رہنماؤں کے علاوہ 20 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت نے بھی اس پریڈ میں شرکت کی جن میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف بھی شامل تھے۔
یہ پہلا موقع تھا جب دنیا میں سب سے زیادہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے سربراہان مملکت یعنی ولادیمر پوتن اور کم جونگ اُن عوامی سطح پر شی جن پنگ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نظر آئے۔
اسی پریڈ کے موقع پر کی گئی تقریر میں شی جن پنگ نے کسی کا نام لیے بغیر واضح الفاظ میں کہا کہ ’چین کسی کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔‘ بظاہر اس کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اپنے پیغام میں چینی صدر پر الزام عائد کیا کہ وہ روس اور شمالی کوریا کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
او پی جندال یونیورسٹی میں چائنہ سٹڈیز کی پروفیسر شریپرنا پاٹھک کے مطابق امریکہ چین میں ہونے والی اس پریڈ اور عالمی میڈیا پر اسے ملنے والی توجہ کے باعث بظاہر تھوڑا پریشان ہے، اور شاید اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی صدر پر الزام تراشی کے ساتھ ساتھ چین کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکی فوج نے چین کی مدد کی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ اور انڈیا کے تعلقات تجارتی معاملات کو لے کر شدید کشیدگی کا شکار ہوئے ہیں اور صدر ٹرمپ نے بارہا انڈیا پر کھلے بندوں تنقید کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پانچ سال کے وقفے کے بعد انڈیا کی چین کے ساتھ تعلقات میں کچھ گرمجوشی نظر آتی ہے۔ چین اور انڈیا کے تعلقات سنہ 2020میں اُس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جب وادی گالوان میں دونوں ممالک کی افواج میں خونریز تصادم ہوا تھا، تاہم اب پانچ سال کے وقفے کے بعد امریکہ کے رویے نے بظاہر انڈیا اور چین میں ایک مرتبہ پھر قربت پیدا کر دی ہے۔
انڈیا اور چین کے تعلقات میں حالیہ بہتری کی ابتدا گذشتہ ماہ اُس وقت ہوئی جب چین کے وزیر خارجہ نے انڈیا اور انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین کے دورے کیے۔
دوسری جانب وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سات سال بعد شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے چین کا دورہ کیا۔ انڈین میں ماہرین نے مودی کے اس دورے کو ہندوستان اور چین کے تعلقات میں بہتری کی جانب ایک اہم اشارہ قرار دیا۔
تاہم ایس سی او کے اجلاس کے اگلے ہی روز ہونے والی فوجی پریڈ، جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے والے لگ بھگ تمام سربراہان مملکت نے شرکت کی، سے وزیر اعظم مودی غائب تھے۔
اس حوالے سے بہت سے چہ میگوئیاں بھی ہوئیں اور تجزیے اور تبصرے بھی کیے گئے تاہم ہنوز سوال یہی رہا کہ مودی اس اہم پریڈ سے غیرحاضر کیوں تھے؟
مودی پریڈ میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟
سرکاری سطح پر انڈیا نے فی الحال اس معاملے پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
تاہم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر فار چائنا اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشیا سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اروند یلاری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین میں ہونے والی پریڈ دراصل دوسری عالمی جنگ میں چین کے خلاف جاپانی جارحیت میں جیت کا جشن تھی، اس لیے انڈیا اس کا حصہ بن کر جاپان کو کوئی منفی پیغام نہیں دینا چاہتا تھا، جاپان کے انڈیا سے پرانے اور کافی بہتر تعلقات ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان برطانوی سامراج کے خلاف کھڑا تھا نہ کہ جاپان کے خلاف۔‘
اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر شریپرنا پاٹھک کا کہنا تھا کہ ’وکٹری ڈے پریڈ میں شرکت کے لیے تمام ممالک کے سربراہان کو دعوت دی گئی تھی، مگر مودی اس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ پریڈ جاپانی فوج کے خلاف فتح کا جشن ہے اور جاپان انڈیا کا اچھا دوست ہے۔ چین نے نہ تو ماضی میں کبھی انڈیا پر بھروسہ کیا اور نہ ہی وہ اب کرتا ہے۔‘
سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر امیتابھ سنگھ بھی ماہرین کی اس رائے سے متفق ہیں تاہم وہ ایک اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انڈیا عالمی منظر نامے میں اُن طاقتوں کے ساتھ کھڑا نہیں دیکھا جانا چاہتا جو لبرل اور جمہوری نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی پہلے جاپان گئے تھے اور پھر وہاں سے چین پہنچے تھے۔ چین اور شمالی کوریا کےجاپان کے ساتھ تاریخی کشیدہ تعلقات ہیں۔
امیتابھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’جاپان اور چین کی اپنی دشمنی کی تاریخ ہے، اگر چین میں قوم پرستی کا احساس جگانا ہو تو جاپان اور دوسری عالمی جنگ کا نام لیا جاتا ہے، اور ایسی صورتحال میں انڈیا چین اور شمالی کوریا کے ساتھ سٹیج شیئر کرتے ہوئے یقینی طور پر بے چینی محسوس کرے گا۔‘
اروند یلری کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کے لیے جاپان فاشسٹ طاقت نہیں تھا، اسی لیے انڈیا اِس فوجی پریڈ سے دور رہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر انڈیا اس پریڈ میں شریک ہوتا تو یہ ایسا ہوتا کہ جیسے انڈیا چین کی فوجی نمائش کی حمایت اور توثیق کر رہا ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ آج کوئی فاشسٹ طاقتیں نہیں ہیں، جس طرح سے چین اور پیپلز لبریشن آرمی اپنا فوجی غلبہ بڑھا رہے ہیں، تو ممکن تھا کہ اس سٹیج پر وزیر اعظم مودی کی موجودگی کو چین اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا۔ بطاہر یہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر اس پریڈ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘
امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ فیکٹر

انڈیا پر 50 فیصد تک امریکی ٹیرف کے اطلاق سے بہت پہلے ہی امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں تلخی در آئی تھی۔ اور مودی کے چین کے حالیہ دورے کو بڑے پیمانے پر اسی تناظر میں دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی کے دورہ چین اور شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے دوران شی جن پنگ اور پوتن کے ساتھ اُن کی گرمجوشی کو امریکہ کے لیے ایک پیغام قرار دیا جا رہا ہے۔
مگر ایک اہم سوال یہ بھی کیا جا رہا کہ کیا وزیر اعظم مودی چین کی فوجی پریڈ میں شرکت کرکے ٹرمپ کو مزید ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے؟
امیتابھ سنگھ کو نہیں لگتا کہ وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ یا امریکہ کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔ اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے انڈیا کے دورے کے فوری بعد پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ ایک طرح سے انھوں نے انڈیا اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی سعی کی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ چین میں سربراہان مملکت کا اجتماع دراصل عالمی سطح پر اس تناظر میں دیکھا گیا کہ یہ اُن ممالک کا اکٹھ تھا جو چینی ورلڈ آرڈر میں شامل ہونا چاہتے ہیں، اور بظاہر یہی ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے انڈیا نے اس میں شامل ہونے سے گریز کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم اِس پریڈ میں شریک ممالک کی فہرست بنائیں تو وہ سب لبرل ازم، جمہوریت اور شہری حقوق کے لحاظ سے کم درجے پر آتے ہیں۔ یہ پریڈ نہ صرف طاقت کا مظاہرہ تھا بلکہ ایک متبادل ورلڈ آرڈر کا بیانیہ بھی تھا۔‘
امیتابھ سنگھ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا یہ دورہ صرف ایک پیغام تھا کیونکہ انڈیا اچھی طرح جانتا ہے کہ چین کے ساتھ اس کے بہت سے اختلافات ہیں جو صرف ایک دورے سے حل نہیں ہو سکتے لیکن یہ اس کی جانب پہلا قدم ضرور ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت دنیا میں ایک ایسی صورتحال ہے جس میں اتحاد کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انڈیا چین کی قیادت میں کسی نئے ورلڈ آرڈر کے ساتھ کھڑا ہے، انڈیا لبرل اور جمہوری ورلڈ آرڈر کے ساتھ کھڑا دیکھا جانا چاہتا ہے۔‘