حال ہی میں انڈیا کے شہر پٹنہ کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزمیں ایک ایسا کیس سامنے آیا ہے جس میں ایک مریض کی دائیں آنکھ میں ان کا بڑھا ہوا دانت پایا گیا تھا۔
پٹنہ کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ایک پیچیدہ آپریشن کیا گیا ہے (فائل فوٹو)کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ دانت منھ کے علاوہ بھی چہرے کے کسی حصے میں نظر آ سکتے ہیں۔ حال ہی میں انڈیا کے شہر پٹنہ کے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزمیں ایک ایسا کیس سامنے آیا ہے جس میں ایک مریض کی دائیں آنکھ میں ان کا بڑھا ہوا دانت پایا گیا تھا۔
مریض کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر اسے طبی سائنس کے غیرمعمولی ترین کیسز میں سے ایک سمجھتے ہیں۔
مریض کی آنکھ سے دانت نکالنے کے لیے 11 اگست کو ان کا آپریشن کیا گیا اور وہ اب صحت مند ہیں۔ بی بی سی نے اس معاملے کو سمجھنے کے لیے مریض اور ان کے آپریشن میں شامل ڈاکٹروں سے بات کی ہے۔
اس رپورٹ میں ہم نے ہسپتال کی رازداری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مریض کا نام تبدیل کر دیا ہے۔
رمیش کمار (فرضی نام ) بہار کے ضلع سیوان کے رہنے والے ہیں۔ 42 سالہ رمیش نے گزشتہ سال اکتوبر میں اپنے اوپری دانت میں سے ایک کے قریب سے خون بہنے کی شکایت کی تھی۔
گاؤں میں رہنے والے رمیش نے مقامی ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو ڈاکٹر نے ان کا علاج شروع کیا جس کے بعد دسمبر 2024 تک رمیش مکمل طور پر صحت مند ہو گئے۔
تاہم مارچ 2025 میں رمیش نے محسوس کیا کہ ان کی دائیں آنکھ اور دانتوں کے درمیان،’ یعنی اس کے گالوں پر ایک گانٹھ ابھر آئی ہے۔
رمیش نے پھر ایک مقامی ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور اس بار ڈاکٹر نے رمیش کو مشورہ دیا کہ وہ پٹنہ جا کر ڈاکٹر کو چیک کروائیں۔
مریض رمیش کمار (نام بدلا ہوا ہے) نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اب صحت مند ہیںرمیش نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’گانٹھ کی وجہ سے میری نظر دھندلی ہو گئی تھی اور میرے سر کے دائیں طرف درد تھا۔ اس کی وجہ چکر آتے اور سستی ایسی رہتی کہ مجھے ہمیشہ سونے کی طلب ہوتی۔‘
’میرا سارا کام برباد ہو رہا تھا۔ جس کے بعد میں نے جون میںانردا گاندھی ہسپتال کے دانتوں کے ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ ڈاکٹرز نے میرا سی بی سی ٹی سکین کروایا جس میں پتا چلا کہ میری آنکھ میں دانت ہے۔ ‘
رمیش کے مطابق ’11 اگست کو ڈاکٹروں نے میرا آپریشن کیا۔ میں اب مکمل طور پر صحت مند ہوں۔‘
یاد رہے کہ سی بی سی ٹی کا مطلب کون بیم کمپیوٹیڈ ٹوموگرافی ہے۔ آسان الفاظ میں یہ ایکسرے کی ایک قسم ہے۔ یہ میکسیلو فیشل ایریا کا ایکسرے کرکے تھری ڈی تصاویر بناتا ہے۔
ان کی آنکھ میں دانت کیسے بڑھا؟
یہ ایک مشکل اور نایاب کیس تھا اور ڈاکٹروں نے دانت نکالنے کے لیے مشکل سرجری کیرمیش کا علاج ڈینٹل ڈیپارٹمنٹ کے میکسیلو فیشل، او ایم آر (اورل میڈیسن اینڈ ریڈیالوجی) اور اینستھیزیا سیکشنز نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
یاد رہے کہ میکسیلو کا مطلب ہے جبڑا اور فیشل کا مطلب چہرہ ہے۔ میکسیلو فیشل سرجن دماغ، آنکھوں اور کانوں کے اندرونی حصوں کے ساتھ ساتھ سر سے گلے تک کے باقی ماندہ ڈھانچے کی سرجری کرتا ہے۔
اسی طرح او آر ایم کا کام ایکسرے جیسی ٹیکنالوجی کے ذریعے دانتوں، منھ، جبڑے اور چہرے کے مسائل کا پتہ لگانا ہے جو عام معائنے میں نظر نہیں آتے۔
مریض کی آنکھ میں دانت کیسے اُگے؟
مریض کی آنکھ میں دانت کیسے نکل آئے؟ اس سوال کے جواب میں ہسپتال کے او ایم آر ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ نیمی سنگھ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بڑھتے ہوئے انسان میں پائی جانے والی غیر معمولی بے ضابطگی ہے، یعنی جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ ساتھ دانت بھی نشوونما پاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ دانت ایک ایسی جگہ پر بننا شروع ہو جاتا ہے جو نارمل نہیں ہوتا۔‘
آپریشن میں شامل میکسیلو فیشل سرجن پریانکر سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہمارے جسم کی ساخت میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اپنی عام جگہوں پر بننے کے بجائے مختلف جگہوں پر بنتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اس دوران چہرہ بننے لگتا ہے تو ایسا ہو جاتا ہے کہ اس دوران دانت بنانے والا عنصر بکھر جاتا ہے، یہ جسم کے کسی حصے میں بھی بڑھ سکتا ہے۔‘
’دانتوں کی جڑیں آنکھوں کے نیچے تھیں‘
او آر ایم کا کام دانتوں، منہ، جبڑے اور چہرے کے مسائل کا پتہ لگانا ہے جو عام معائنے میں نظر نہیں آتےانسانی کھوپڑی میں ہڈی کا وہ خلیہ جس میں ہماری آنکھیں واقع ہوتی ہیں مدار یا آربٹ کہلاتی ہیں۔
اگر آسان الفاظ میں بات کریں تو ساکٹ جو اپنے اردگرد آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے وہ مدار ہے۔ آنکھوں کے نیچے والے حصے کو ’فلور آف دی آربٹ‘ کہا جاتا ہے۔
جب مریض رمیش کمار نے سکین کرایا تو پتہ چلا کہ مدار پر دانت کی جڑیں ہیں۔
پریانکر بتاتے ہیں کہ ’اس معاملے میں دانت کی جڑیں مدار میں (آنکھوں کے نیچے) تھیں۔ جب کہ اس کا تاج جیسا اوپری حصہ (دانت کا سفید حصہ) میکسلری سائنس میں تھا۔ چونکہ یہ دانت اپنی معمول کی جگہ پر نہیں بنتا تھا اس لیے یہ جسم کے لیے گویا اجنبی یا مشکوک چیز تھی۔‘
’جسم کے دفاعی نظام نے اس اجنبی چیز کے ارد گرد ایک سسٹ (ایک قسم کی تھیلی) بنائی تھی تاکہ اس کی حفاظت کی جاسکے۔ اس سسٹ نے پورے میکسلری سائنس ایریا کو گھیر لیا تھا جس کی وجہ سے چہرے پر سوجن تھی اور اوپری جبڑے کی ہڈی پگھل رہی تھی۔‘
میکسلری سائنس آربٹ اور ہمارے اوپری جبڑے کے درمیان کا علاقہ ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ ہمارے گال کا ایک حصہ ہے۔
چونکہ دانت آنکھ کے مدار کےفلور میں بنتا تھا، جہاں بہت سے اعصاب پائے جاتے ہیں اس لیے یہ ایک مشکل سرجری تھی۔
دانت کا سائز کیا تھا؟
جب میں مریض رمیش کمار سے ملی تو وہ بالکل نارمل لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی نشان نہیں تھا۔
دراصل سرجری ان کے منھ کے اندر جبڑے میں چیرا لگا کر کی گئی تھی۔ جس میں 10 سے 12 ٹانکے لگائے گئے۔
سرجن پریانکر سنگھ نے شروع میں فیصلہ کیا کہ وہ آنکھ کے قریب چیرا لگا کر یہ آپریشن کریں گے۔ لیکن مریض رمیش کی کم عمری اور ان کے پیشے کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ سرجری اندرونی طور پر یعنی منھ کے اندر سے کی جائے۔
اس آپریشن کے بعد مریض کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہیں اور ان کی بینائی پہلے جیسی ہے۔
جب میں نے سوال کیا کہ اس نکالے گئے دانت کا سائز کیا تھا؟ توجواب میں نیمی سنگھ نے کہا کہ ’مریض کے اس دانت کا سائز پریمولر ٹوتھ (چھوٹی داڑھ) جتنا بڑا تھا۔‘
پری مولر دانت ہمارے منہ کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔ وہ سامنے سے نظر آنے والے کینائن دانتوں اور منھ کے پچھلے حصے میں واقع داڑھ کے دانتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔
پریانکر سنگھ بتاتے ہیں کہ ’مریض کے پاس دانتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ جب تمام دانت موجود ہوں اور پھر بھی ایک نیا دانت بنتا ہے تو ہم اسے سپرنمبرری ٹوتھ کہتے ہیں۔‘
کیا اس سے پہلے ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں؟
فائل فوٹونمی سنگھ اور پرینکر سنگھ دونوں نے اس کیس کو ’انتہائی غیرمعمولی‘ سمجھتے ہیں۔
پریانکر سنگھ بتاتے ہیں کہ ’ انڈیا بھر میں ایسے صرف دو یا تین کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ سال 2020 میں مشہور سرجن ایس ایم بالاجی نے چنئی میں ایسا ہی ایک آپریشن کیا تھا۔ اس معاملے میں بھی دانت ایک بہت ہی اہم جسمانی حصے کے قریب تھا جیسا کہ ہمارے مریض کا تھا۔‘
کیا ایکٹوپک دانت دوبارہ بن سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں پریانکر سنگھ کہتے ہیں کہ ’اس طرح کے دانتوں کے دوبارہ بننے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن ہم باقاعدگی سے مریض کو دیکھتے ہیں۔ ہم نے مریض کے سسٹ کو بہت احتیاط سے ہٹا دیا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ کچھ حصہ باقی رہ سکتا ہے۔‘
جب بی بی سی کی ٹیم رمیش سے ملی تو انھیں ٹانکے لگنے کی وجہ سے بولنے اور مسکرانے میں کچھ دقت ہو رہی تھی۔ لیکن وہ اپنے علاج سے خوش اور مطمئن تھے۔
رمیش کہتے ہیں کہ ’میری بیوی بہت پریشان تھی اور وہ روتی رہی۔ جب قریبی علاقے کے گاؤں والوں کو اس بات کا علم ہوا تو ہر کوئی میری خیریت جاننا چاہتا تھا۔ لیکن ابھی زیادہ بات کرنا میرے لیے اچھا نہیں ہے۔ میں اپنے لوگوں کے درمیان دوبارہ اپنی زندگی شروع کرنے اور اپنی بیوی اور بچے سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘