صوبہ خیبرپختونخوا کی برف پوش وادیوں میں بسنے والی کیلاش برادری اپنی جداگانہ تہذیب اور منفرد رسومات کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ان صدیوں پرانی روایات کو تحریری شکل دینے کے لیے حکومت نے ’کیلاش میرج بل‘ کا مسودہ تیار کیا ہے جس میں روایت اور قانون کو ایک ساتھ باندھنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ مسودہ کابینہ کی قانون ساز کمیٹی نے منظور کر لیا ہے۔کیلاش میرج بل کیا ہے؟وادی کیلاش تین چھوٹی وادیوں پر مشتمل ہے جن میں چار ہزار کے لگ بھگ کیلاشی رہتے ہیں۔ اس اقلیتی آبادی کی شادی بیاہ کی رسوم و رواج کو قانون کا حصہ بنانے کے لیے کیلاش میرج ایکٹ تیار کر لیا گیا ہے۔مجوزہ بل میں شادی کی عمر، جہیز، طلاق اور وراثت سے متعلق کیلاش برادری کے عقائد کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔
کیلاش میرج بل کے تحت شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے جبکہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
کیلاش ایکٹ کے مطابق لڑکی اگر اپنی مرضی سے شادی کرے تو ان تمام رسومات کو الاشینگ مرات اور شیشا استونگاس کا نام دیا جائے گا۔ بیوی کے گھر والوں کو تحائف دینا کیلاش میرج بل کے تحت شادی کے لیے لڑکی یا والدین کی رضامندی کی تصدیق کے بعد شوہر خاتون کے والدین یا پھر قریبی رشتہ داروں کو تحائف دے گا تاہم تحائف کی مالیت مقرر نہیں ہے بلکہ ہر مرد اپنی مالی حیثیت کے مطابق یہ رسم ادا کرسکتا ہے۔کیلاش قبیلے میں مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے کیلاش قبیلے کے مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوں اور اپنی بیویوں کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہوں۔
کیلاش میرج بل کے تحت شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کیلاش میرج بل کے مطابق مرد کی دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہو گی۔
شادی کی رجسٹریشن کیلاش قبیلے میں تمام شادیاں متعلقہ ویلیج کونسل کے چیئرمین اور متعلقہ سیکریٹری کی موجودگی میں ہوں گی۔لوکل گورنمنٹ کی جانب سے تعینات سیکریٹری ان شادیوں کی تصدیق کر کے رجسٹریشن کاعمل مکمل کرے گا۔ شادی کے لیے لڑکے لڑکی کا شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے۔ طلاق کا طریقۂ کار کیلاش ایکٹ کے تحت مرد اگر اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق دے تو شوہر کسی بھی قسم کے نقصان کے ازالے کا دعوے دار نہیں ہوگا۔ وہ نہ تو بیوی اور نہ ہی اس کے والدین سے کسی قسم کے پیسوں کا مطالبہ کرسکتا ہے تاہم اس قانون کے تحت شادی کے موقع پر دیے گئے تحائف شوہر خاتون کو واپس کرنے کا پابند ہوگا۔کیلاش قبیلے میں بیوی اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہے کیلاش میرج ایکٹ کے تحت بیوی کو شوہر کو طلاق دینے یا چھوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے، اس صورت میں خاتون کے گھر والے شادی کے تمام اخراجات کی نصف رقم شوہر کو ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔
کیلاش ایکٹ کے تحت مرد اگر اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق دے تو شوہر کسی بھی قسم کے نقصان کے ازالے کا دعوے دار نہیں ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خاتون اگر طلاق کے بعد دوسری شادی کرے تو اس صورت میں پہلے شوہر کو تمام اخراجات کو دگنا کر کے پیسوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ اس رسم کو مقامی زبان میں جا پریک کہتے ہیں۔
خون کے رشتے سے شادی کی ممانعت وادی کیلاش کے قانون کے مطابق خون کے رشتوں سے شادی کی ممانعت ہے۔ والد کے خاندان میں سات پشتوں تک شادی کی اجازت نہیں ہے۔کیلاش کے سیاسی رہنما اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے فوکل پرسن برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ ’وادی کیلاش میں کزن میرج کا رواج نہیں ہے، کسی کیلاشی باشندے نے اگر والد کے خاندان میں کسی فرد سے شادی کی تو اسے مذہبی تہوار میں دعائیہ تقریب سے الگ کیا جاتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’کیلاش میرج ایکٹ میں شادی کے قدیم رسم و رواج کو برقرار رکھا گیا ہے۔ پرانی روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی گئی ہے تاکہ قدیم تہذیب کو زندہ رکھا جا سکے اور کیلاش کے باشندے آبائواجداد کے طورطریقوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔‘کیلاش میرج بل کی ضروت کیوں پڑی؟کیلاش قبیلے کے سیاسی اور سماجی رہنما وزیر زادہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کیلاش میں ہونے والی شادیوں کو رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’کیلاش میاں بیوی کے پاس شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے میں مشکلات پیش آتی تھیں جبکہ دیگر شہروں میں ملازمت اور دیگر امور کے لیے نکاح نامہ کی صورت میں ثبوت طلب کیا جاتا تھا۔‘
صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق کیلاش میرج بل وہاں کی اقلیتی برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وزیر زادہ کے مطابق کیلاش میرج ایکٹ کے بعد میاں بیوی کے پاس سرٹیفیکیٹ ہوگا جس کے تحت وہ قانونی طور پر ایک دوسرے کے شریک حیات قرار دیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کیلاش میرج بل میں طلاق کے قانون کو بھی شامل کیا گیا ہے جسے اب دستاویزی حیثیت دی گئی ہے۔‘وزیر قانون کا مؤقف خیرپختونخوا کے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے مؤقف اپنایا کہ ’کیلاش میرج بل وہاں کی اقلیتی برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا اس سے قبل کیلاشی جوڑوں کے پاس سرکاری طور پر شادی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے انہیں سماجی اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’کیلاش میرج بل قانونی طریقۂ کار ہے جس کے تحت شادیاں کیلاش مذہب کی اقدار اور روایات کے مطابق رجسٹر ہوں گی جو ثقافتی اعتبار سے اس منفرد قبیلے کی بقا کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔‘واضح رہے کہ کیلاش میرج بل کے ڈرافٹ کو کابینہ کی قانون ساز کمیٹی نے منظور کرکے کابینہ کو ارسال کر دیا ہے جو اگلے اجلاس کے ایجنڈے میں منظوری کے لیے شامل کیا جائے گا۔