حال ہی میں چین اور روس کے صدور کو زندگی کو لمبا کرنے کے طریقے کے طور پر ٹرانسپلانٹ پر بات کرتے ہوئے سنا گیا۔
صدر پوتن نے شی جن پنگ کو بتایا کہ کس طرح انسانی اعضا کی بار بار پیوند کاری سے موت کو ٹالا جاتا ہےکیا اعضا کی پیوندکاری سے موت کو ٹالا جا سکتا ہے؟ یہ ایک غیر معمولی موضوع تھا جس پر رواں ہفتے چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان بیجنگ میں ہونے والی ملاقات میں بات ہوئی۔
صدر پوتن کی جانب سے بات کرتے ہوئے ایک مترجم نے شی جن پنگ کو بتایا کہ کس طرح انسانی اعضا کی بار بار پیوند کاری کی جا سکتی ہے تاکہبڑھتی عمر کے باوجود بھی ’کوئی جوان ہوتا جائے اور غیر معینہ مدت تک بڑھاپے سے دور رہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس صدی میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہڈیڑھ سو سال تک بھی زندہ رہا جا سکتا ہے۔‘
اُن کی مسکراہٹوں اور قہقہوں سے لگتا تھا کہ یہ بات مذاق میں کی گئی لیکن کیا واقعی ایسا کچھ ہو سکتا ہے؟
اعضا کی پیوندکاری سے انسانی جانیں بچائیں جا رہی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق گذشتہ تیس سال میں برطانیہ میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیاں بچائی گئی ہیں۔
اس شعبے میں مسلسل تحقیق جاری ہے اور اعضا کی پیوند کاری سے مریضوں کی زندگیاں بڑھ گئی ہیں۔
گردے کی پیوند کاری کے بعد بعض افراد میں گردے 50 سال سے بھی زیادہ عرصے تک کام کرتے رہے۔
کسی بھی انسانی عضو کی عمر کا انحصار ڈونر یا عطیہ کرنے والے شخص اور جس مریض کو یہ عضو لگتا ہے اُس کی صحت پر ہوتا ہے۔
دوسرا یہ کہ پیوند کاری کے بعد دیکھ بھال کتنی اچھی کی گئی۔
مثال کے طور پر زندہ شخص کے گردہ عطیہ کرنے کے بعد مریض 20 سے 25 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر مردہ شخص سے لیے گئے گردے کی پیوند کاری کی جائے تو مریض کے زندہ رہنے کا امکان کم ہو کر 15 سے 20 سال تک ہو جاتا ہے۔
اس میں یہ بھی اہم ہے کہ کس انسانی عضو کی پیوند کاری کی گئی۔
جرنل آف میڈیکل اکنامکس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق پیوند کاری کے بعد جگر 20 سال، دل 15 سال اور پھیپھڑے تقریباً 10 سال تک کام کر سکتے ہیں۔
اعضا کی پیوندکاری سے ہر سال کئی انسانوں کی جان بچائی جا سکتی ہےکیا ’ابدی زندگی‘ ممکن ہے؟
صدر پوتن اور شی ممکنہ طور پر کئی اعضا کی بار بار پیوند کاری کی بات کر رہے ہیں۔
سرجروی کروانا ایک بڑا کام ہے جو خطرات سے خالی نہیں۔ فی الحال، جو لوگ نیا عضو لگواتے ہیں انھیں زندگی بھر اینٹی ریجیکشن نامی دوائی امیونوسوپریسنٹ (immunosuppressant) لینا پڑتی ہے اور اس دوا کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں، جیسے ہائی بلڈ پریشر اور انفیکشن کا خطرہ ہونا۔
ریجیکشن یعنی مسترد کرنا سے مراد یہ ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام ٹرانسپلانٹ ہونے والے عضو پر حملہ کرتا ہے کیونکہ اُسے لگتا ہے کہ یہ کہیں باہر سے جسم میں داخل ہو رہا ہے۔ کئی مرتبہ انٹی ریجیکشن ادویات بھی موثر نہیں رہتی ہیں۔
ٹرانسپلانٹ کیے گئے اعضا
سائنسدان ایسے اعضا پر کام کر رہے ہیں جو ریجیکشن فری ہوں جیسے جنیتاتی طور پر تبدیل کیے گئے سور کے اعضا کی پیوند کاری وغیرہ۔
وہ جین ایڈیٹینگ کی مدد سے سور کے عضو میں سے کچھ جین کو نکال کر انسانی جین شامل کر دیتے ہیں تاکہ یہ اعضا انسانوں جیسے ہو جائیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر سور کی بریڈنگ کرنا اچھا رہے گا کیونکہ اُن کے اعضا کا سائز انسانی اعضا کے سائز کے برابر ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ابھی تجربات جاری ہیں لیکن دل اور گردے کی پیوندکاری کا آپریشن ہو چکا ہے۔
دو افراد جنھوں نے سور کے اعضا کے ٹرانسپلانٹ پر رضامندی ظاہر کی وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اُنھوں نے ٹشوز اور اعضا کی ٹرانسپلانٹ کے لیے کی جانے والی تحقیق میں اپنا کردار ادا کیا۔
اس شعبے میں انسانی خلیے سے بھی عضو کی نشوونما پر کام ہو رہا ہے۔ سٹیم سیل میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس سے انسانی جسم کے ہر طرح کے ٹشوز بنائے جا سکتے ہیں۔
2020 میں برطانیہ کے محققین اور فرانسس کرک انسٹیٹیوٹ نے انسانی سٹیم سیلز اور بائیو انجینیئرڈ اسکافولڈ
(bioengineered scaffold) کا استعمال کرتے ہوئے ایک انسانی تھیمس(thymus) بنایا تھا جو مدافعتی نظام میں ایک اہم عضو ہے۔
جب اسے تجرباتی طور پر چوہوں میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا تو اس نے کام کیا۔
لندن کے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے مریض کے ٹشوز سے سٹیم سیلز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی آنتوں کے گرافٹس تیار کیے ہیں جو ایک دن آنتوں کی خرابی کے شکار بچوں میں ٹرانسپلانٹ کیے جا سکیں گے۔
لیکن اس تمام تحقیق کا مقصد بیماروں کا علاج کرنا ہے نہ کہ لوگوں کو 150 سال تک زندہ رکھا جائے۔
برائن جانسن اپنی عمر کم کرنے کی کوشش میں سالانہ لاکھوں خرچ کر رہے ہیںٹیک انڈسٹری سے وابستہ انٹرپرینیور برائن جانسن اپنی عمر کم کرنے کی کوشش میں سالانہ لاکھوں خرچ کر رہے ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق انھوں نے کسی اعضا کی پیوندکاری نہیں کروائی لیکن انھوں نے اپنے 17 سالہ بیٹے کا پلازما لگوایا۔
کوئی خاص فائدہ نہ ہونے اور فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنٹسریشن جیسی تنظیموں کی جانب سے سخت ریگولیشن کے سبب انھوں نے اسے اب روک دیا۔
کنگز کالج لندن سے وابستہ ڈاکٹر جولین مٹز نے کہا کہ اعضا کی پیوند کاری کے علاوہ پلازما کی تبدیلی جیسے طریقوں پر بھی کام ہو رہا ہے لیکن یہ سب تجرباتی مرحلے میں ہیں۔
’کیا یہ حکمتِ عملی عمر بڑھانے یا خاص کر انسانی عمر بڑھانے کے لیے موثر ہے۔ اس بارے میں کچھ بھی حتمیٰ نہیں حالانکہ اس میں سائنس کی کافی دلچسپی موجود ہے۔‘
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے روزلن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ماہر امیونو پیتھولوجی پروفیسر نیل میبوٹ کا ماننا ہے کہ انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر 125 سال تک ہو سکتی ہے۔
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’سب سے زیادہ عمر رسیدہ شخص ایک فرانسیسی خاتون تھیں، جو 1875 اور 1997 کے درمیان 122 سال زندہ رہیں۔‘
اب تک سب سے طویل عمر پانے والی فرانسیسی خاتونجوں جوں عمر بڑھتی ہے جسم میں دباؤ سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور اسی عمر میں خراب یا بیمار اعضا کو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے تبدیل کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس عمر میں جسم انفیکشنز کے لیے کم مؤثر انداز میں ردرعمل دیتا ہے۔ جسم زیادہ کمزور اور چوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور ہمصحت یاب ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔‘
انھوں نے کہا کہ بظاہر زندگی بڑھانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم صحت مند زندگی گزرانے پر زور دیں۔
پروفیسر میببوٹ کا کہنا ہے کہ ’لمبی زندگی پانے کے لیے، عمر کے ساتھ ہونے والے مسائل کا سامنا کرنا اور بار بار ٹرانسپلانٹ کے لیے ہسپتال آنا جانا مجھے اپنی ریٹائرمنٹ ایسے گزارنا زیادہ اچھا نہیں لگ رہا۔‘