صدیوں پہلے آنے والا مہلک ترین زلزلہ، جس سے قبل لوگ قدرتی آفات کو ’خدا کا عذاب‘ سمجھتے تھے

سنہ 1755 میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں آنے والے زلزلے نے دنیا پر اتنا گہرا اثر ڈالا جسے آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
لزبن، زلزلہ
Getty Images
اس زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے

سنہ 1755 میں پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں آنے والے زلزلے نے دنیا پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ جسے آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

اٹھارویں صدی کے ایک اہم شہر کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس زلزلے نے اس وقت کی ذہنیت کو بھی ہلا ڈالاتھا۔

اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ’زلزلے خدا کی طرف سے عذاب‘ ہیں۔ کچھ نے سوال کیا کہ کیا سائنس دنیا کو سمجھنے کا بہترین طریقہ ہے؟

اب ہم اس فکری سوچ کو روشن خیالی سے جوڑتے ہیں جس کی وجہ سے فرانسیسی صنعتی انقلاب اور امریکہ کیآزادی کی جنگ شروع ہوئی۔

لزبن میں کیا ہوا تھا؟

سنہ 1755 میں لزبن میں ’آل سینٹس ڈے‘ کسی بھی دوسرے دن کی طرح شروع تو ہوا لیکن پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔

سمندری بگلوں کی اڑان کے بعد بہت بڑی تباہی ہوئی۔ مکانات گر گئے اور لوگوں نے سوچا کہ خدا انھیں سزا دے رہا ہے۔

پھر سونامی آئی اور پانچ میٹر اونچی لہریں پیدا ہوئیں۔

اس کے بعد آگ نے تباہی مچائی اور پورا شہر جل گیا۔

یہ دنیا کے مہلک ترین زلزلوں میں سے ایک تھا، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

لزبن، زلزلہ
Getty Images
لزبن 1755 میں ایک عالمی نوآبادیاتی سلطنت کا دارالحکومت تھا

لیکن اس تباہی کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہوئی: سوچنے کا ایک نیا طریقہ اور سائنس کی نئی تفہیم۔

لزبن 1755 میں ایک عالمی نوآبادیاتی سلطنت کا دارالحکومت تھا جس میں افریقہ میں انگولا، موزمبیق اور کیپ ورڈی، ایشیا میں گوا اور مکاؤ اور لاطینی امریکہ میں برازیل شامل تھے۔

پرتگال اپنی کالونیوں سے حاصل ہونے والی دولت کی وجہ سے بہت امیر مملکت تھی۔

لزبن پہلی حقیقی عالمی سلطنت کا دارالحکومت بھی تھا، جو شہر میں لائے گئے سونے، چینی اور مسالوں کے سبب تجارتی دارالحکومت بھی کہلاتا تھا۔

امیر لوگ آرام دہ زندگی بسر کرتے تھے لیکن عام لوگ جدوجہد کرتے تھے۔

بادشاہت نے یورپ کے بیشتر حصوں پر حکومت کی، یعنی بادشاہ کو عوام پر مکمل اختیار حاصل تھا۔ چرچ دوسری بڑی طاقت تھا۔ سیاسی فیصلوں میں عوام کا نہ ووٹ تھا نہ آواز۔ وہ صرف پیداوار اور زرعی کاموں کے لیے تھے۔

ایسی تباہی کی خبر، جس نے لزبن جیسے اہم شہر کو تباہ کر دیا تھا، تیزی سے پھیل گئی۔

یہ زلزلہ یورپ بھر میں اخبارات اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والی پہلی عالمی آفت تھا۔

یہ خبر اس وقت کے تمام عظیم مفکرین تک پہنچی، جنھیں ہم اب روشن خیالی کے دور سے جوڑتے ہیں۔ ایک ایسا دور جس میں نیا عالمی نظریہ ابھر رہا تھا۔

ڈاکٹر آندرے کینوٹو کوسٹا وضاحت کرتے ہیں کہ اس تباہی کے بعد امینوئل کانٹ کی تحریریں شائع ہوئیں اور بہت سے فلسفیانہ اور سیاسی مباحثے ہوئے۔ ان میں سے سب سے مشہور والٹر اور جین جیکس روسو کے درمیان ہونے والا مکالمہ تھا۔

وہ مزید کہتے ہیں ’والٹر کے بہت سے تخلیقی کاموں میں پہلی ہی اس خیال کا مذاق اڑایا گیا تھا کہ خدا انسانوں کے تمام معاملات کو چلاتا ہے۔‘

ڈاکٹر کینوٹو کوسٹا مزید کہتے ہیں کہ ’اس کے بجائے سائنس دنیا کی بہتر وضاحت فراہم کرنے کے لیے سامنے آئی۔ پروٹیسٹنٹ فرقے میں پہلے ہی تبدیلی آ چکی تھی لیکن خدا اور فطرت کے درمیان تعلق، جو ابھی تک کسی حد تک برقرار تھا، اس وقت زلزلے سے بری طرح ٹوٹ گیا۔‘

French writer and Enlightenment philosopher François-Marie Arouet, known as Walter.
Getty Images
والٹر اس زمانے کے مشہور فلسفی تھے

لزبن زلزلہ مرکز کی ایک رکن ماریا جواؤ مارکیز اس تباہی سے سائنسی دنیا میں آنے والی گہری تبدیلی کی وضاحت کرتی ہیں۔

’اب بھی اس واقعے کی بنیاد پر سیسمولوجی (زلزلوں پر سائنسی تحقیق) کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یکم نومبر 1755 کو سیسمولوجی کا جنم ہوا تھا۔‘

بہت سے لوگ سائنسی تحریک کے آغاز کو پرتگالی وزیر اعظم مارکوئس ڈو پومبل سے منسوب کرتے ہیں۔ انھیں لزبن شہر کی تعمیر نو کا کام سونپا گیا۔ ایسا کرنے کے لیے انھوں نے تمام رہائشیوں کو سوال نامے بھیجے تھے۔

انھوں نے لوگوں سے یہ سوال پوچھے: زلزلہ کتنی دیر تک رہا؟ یہ کتنا شدید تھا؟ اس سے کتنا نقصان ہوا؟ کتنے لوگ مر گئے؟ زلزلے سے پہلے آپ نے کوئی عجیب و غریب نشان دیکھے؟

لزبن سیسمولوجیکل سینٹر کی رکن ماریا جواؤ مارکیز کہتی ہیں کہ ’ان سوالوں کا جواب دیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا، مارکوئس ڈو پومبل کی ٹیم نے تمام مماثلتوں اور علامات کا جائزہ لیا اور یہ جدید سیسمولوجی کی بنیاد بھی بن گیا۔‘

سیسمولوجسٹ ڈاکٹر لوئس میٹیاس کے مطابق آج ہم زلزلے کی شدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ سب مارکوئس کی جانب سے شروع کی گئی تحقیق کی بدولت ہے۔

ان کے نوٹس میں دی گئی معلومات کے مطابق زلزلے کی شدت 8.5 سے 9 بتائی گئی۔

1755 کے زلزلے نے تقریباً 200 کلومیٹر لمبی اور 80 کلومیٹر چوڑی دراڑ پیدا کی تھی اور اس شگاف میں ہونے والا دھماکہ 20 میٹر بلند تھا جو چھ منزلہ عمارت کی اونچائی بنتی ہے۔

اس زلزلے کا فلسفے، سیاست، حکومت اور مذہب کے ساتھ انسانی تعلق، شہری منصوبہ بندی اور سائنس پر گہرا اثر پڑا۔ جس طرح ایک پتھر تالاب میں گر کر لہریں پیدا کرتا ہے، اسی طرح زلزلے کا اثر پھیلتا ہے اور آس پاس ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔

لزبن کے زلزلے نے واقعات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا، جیسا کہ پرتگال میں غلامی کا خاتمہ، جس کے نتیجے میں دیگر یورپی ممالک میں غلامی کا خاتمہ ہوا کیونکہ اس نے انگلینڈ اور پرتگال کے درمیان تجارت کو متاثر کیا۔

ہو سکتا ہے کہ اس زلزلے نے امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کی کوششوں کو بھی تیز کر دیا ہو۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد فرانس کے انقلاب میں تیزی آئی۔

روشن خالی کا یہ ایسا نیا دور تھا جس نے چرچ اور دنیا میں بادشاہوں کی طاقت کو چیلنج کیا۔

یہ سلسلہ زلزلے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن زلزلے کا دن وہ دن تھا کہ انسانیت جاگنے لگی۔ اس لیے شاید زلزلے کے اس دن کو صحیح معنوں میں جدید دور کی پیدائش کہا جا سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US