مودی کی ایس سی او اجلاس میں شرکت کے بعد انڈیا کے چیف آف ڈیفنس نے چین اور پاکستان کو ’چیلنج‘ کیوں کہا؟

انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع انڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور مستقبل میں بھی یہی صورتحال برقرار رہے گی۔
سی ڈی ایس انیل چوہان نے انڈیا کے شمال مشرقی شہر گورکھپور میں ایک خطاب کے دوران یہ باتیں کہیں
Getty Images
سی ڈی ایس انیل چوہان نے گورکھپور میں ایک خطاب کے دوران انڈین فوج کو درپیش چیلنجز کے بارے میں گفتگو کی

انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع انڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور مستقبل میں بھی یہی صورتحال برقرار رہے گی۔

اس کے ساتھ انھوں نے پاکستان کے ساتھ ’پراکسی وار‘ کو دوسرا بڑا چیلنج بتایا۔ ان کے بقول پاکستان کی انڈیا کو ’ہزار زخم دے کر کمزور کرنے کی‘ حکمت عملی ہے۔

جنرل چوہان نے رواں سال مئی میں کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد انڈیا کے ’آپریشن سنھور‘ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس دوران فوج نے ’دہشت گردوں کے کیمپوں‘ کو تباہ کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس آپریشن میں فوج کو فیصلے لینے کی مکمل آزادی تھی۔

واضح رہے کہ انڈیا نے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی تھی اور پھر آپریشن سندور کے جواب میں ایک جھڑپ دیکھنے میں سامنے آئی جس کے بعد فوری جنگ بندی کا اعلان کیا گيا۔

جنرل چوہان نے یہ تبصرہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب چین کے شہر تیانجن میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی حالیہ کانفرنس میں انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف نے شرکت کی۔

رواں سال جولائی میں انڈین فوج کے ڈپٹی چیف راہُل سنگھ نے کہا تھا کہ آپریشن سندور کے دوران چین نے انڈیا کی فوجی تعیناتی کی نگرانی کے لیے اپنا سیٹلائٹ استعمال کیا اور پاکستان کو ریئل ٹائم معلومات فراہم کیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو پاکستان کی طرف سے چین بھی لڑ رہا تھا۔

جنرل چوہان نے چین اور پاکستان کے ساتھ تنازعے کو بڑے چیلنجز کہے ہیں
Getty Images
جنرل چوہان نے چین اور پاکستان کے ساتھ تنازعے کو بڑے چیلنجز کہے ہیں

جنرل چوہان نے کیا کہا؟

جنرل چوہان نے اتر پردیش کے مشرقی شہر گورکھپور میں ایک پروگرام کے دوران کہا: ’ممالک کے درمیان بہت زیادہ تناؤ ہے، انڈیا کو درپیش چیلنجز عارضی نہیں ہیں، یہ مختلف شکلوں میں برقرار رہتے ہیں۔

’میرا خیال ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع انڈیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور یہ برقرار رہے گا۔ دوسرا بڑا چیلنج پاکستان کی انڈیا کے خلاف پراکسی جنگ ہے، جس کی حکمت عملی ایک ہزار زخم دے کر انڈیا کو کمزور کرنا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ایک اور چیلنج یہ ہے کہ جنگ کے میدان بدل چکے ہیں۔ اب اس میں سائبر اور خلائی جنگ بھی شامل ہے۔ ہمارے دونوں مخالفین (چین اور پاکستان) جوہری طاقتیں ہیں، اور یہ ہمیشہ ایک چیلنج رہے گا کہ ہم ان کے خلاف کس قسم کے فوجی آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے مئی میں پاکستان کے خلاف کیے گئے 'آپریشن سندور' کے بارے میں بھی بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ’آپریشن سندور کا مقصد دہشت گرد حملے کا بدلہ لینا نہیں تھا، بلکہ یہ بتانا تھا کہ ہماری برداشت کی ریڈ لائن کیا ہے۔ ہمیں اہداف کے انتخاب کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل آزادی حاصل تھی۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپریشن سندور ایک ملٹی ڈومین آپریشن تھا جس میں سائبر وارفیئر اور فوج کی تینوں شاخوں کے درمیان کوآرڈینیشن شامل تھا۔

جمعرات کو جنرل چوہان گورکھپور پہنچے۔ وہاں انھوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ گورکھا وار میموریل اور گورکھا میوزیم کی تزئین و آرائش کا سنگ بنیاد رکھا۔

رواں برس جولائی میں جنرل انیل چوہان نے کہا تھا کہ چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جو علاقائی استحکام کو متاثر کر سکتے ہیں۔

ڈپٹی آرمی چیف نے کہا کہ آپریشن سندور کے دوران چین پاکستان کی براہ راست مدد کر رہا تھا
Getty Images
ڈپٹی آرمی چیف نے کہا کہ آپریشن سندور کے دوران چین پاکستان کی براہ راست مدد کر رہا تھا

ڈپٹی آرمی چیف نے بھی چین-پاکستان اتحاد کو نشانہ بنایا

آرمی چیف نے آپریشن سندور میں چین اور پاکستان کے ساتھ مل کر انڈیا کے خلاف لڑنے کی بات بھی کی تھی۔ ڈپٹی چیف راہُل سنگھ نے کہا تھا کہ چین نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع کو لائیو لیب کے طور پر استعمال کیا۔ وہ اس کے ذریعے یہ دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کو دیئے گئے اس کے ہتھیار کیسے کام کر رہے ہیں۔

آپریشن سندور کے فوراً بعد جنرل انیل چوہان نے بھی اس بارے میں بات کی تھی۔ شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’ایسا خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے آپریشن سندور کے دوران چین کے کمرشل سیٹلائٹ کی تصاویر استعمال کی ہوں گی، تاہم ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ اسے ریئل ٹائم میں نشانہ بنانے میں مدد ملی تھی۔‘

انیل چوہان نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع کے دوران 'انڈین لڑاکا طیاروں کو مار گرائے جانے' سے متعلق سوالات کا جواب دیا۔

بلومبرگ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے زور دے کر کہا کہ 'یہ ضروری نہیں کہ طیارہ مار گرایا گیا، اہم یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔'

تاہم انھوں نے چھ طیاروں کو نقصان پہنچانے کے پاکستان کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔

سی ڈی ایس نے کہا: ’میرے خیال میں اہم یہ نہیں ہے کہ جیٹ طیاروں کو مار گرایا گیا بلکہ اہم یہ ہے کہ انھیں کیوں مارا گیا۔‘

لیکن سی ڈی ایس نے طیاروں کی تعداد کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔

یکم ستمبر کو اختتام پزیر ہونے والی ایس سی او کانفرنس میں ایک درجن سے زیادہ ممالک نے شرکت کی
Getty Images
یکم ستمبر کو اختتام پزیر ہونے والی ایس سی او کانفرنس میں ایک درجن سے زیادہ ممالک نے شرکت کی

چین کو چیلنج قرار دینے والا بیان اب کیوں؟

خیال رہے کہ جنرل چوہان کا چین کو ’چیلنج‘ قرار دینے کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب چین نے انڈیا پر لگائے جانے والے 50 فیصد ٹیرف کی مخالفت کی ہے۔

رواں ماہ چین کے شہر تیانجن میں ہونے والے ایس سی او اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں جمی برف پگھلنے کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے سات سال بعد چین کا دورہ کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا، روس اور چین تینوں پر تبصرہ کیا ہے۔

انھوں نے ٹروتھ سوشل پر لکھا: ’ایسا لگتا ہے کہ ہم نے انڈیا اور روس کو گہرے اور تاریک چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی شراکت طویل اور خوشحال ہو گی۔‘

جب ٹرمپ کے ریمارکس پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ ’میرے پاس اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کی۔

اس سے قبل امریکہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے انڈیا-امریکہ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر کڑی تنقید کی ہے۔

جان بولٹن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بہت اچھے ذاتی تعلقات تھے لیکن 'اب یہ ختم ہو گیا ہے۔'

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بولٹن نے انڈیا پر عائد امریکی ٹیرف پر صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس سے قبل بولٹن نے کہا تھا کہ روس پر لگائی گئی پابندیاں انڈیا کو اس کا تیل خریدنے سے نہیں روک سکتیں۔

بولٹن ٹرمپ کے قریب رہے ہیں۔ وہ ٹرمپ کے پہلے دور میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US