’تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہو گا دیکھا جائے گا‘

پہلے کہتے تھے کہ حکمرانوں اور عوام میں بہت فاصلہ ہے۔ اب کہتے ہیں کہ اتنی قربت کیوں ہے کہ ہر ساکت و غیر ساکت شے پر وزیرِ اعلی کی مسکراتی تصویر چسپاں ہے: وسعت اللہ خان کی تحریر
پنجاب، سیلاب، مریم نواز
Getty Images
پہلے کہتے تھے کہ حکمرانوں اور عوام میں بہت فاصلہ ہے۔ اب کہتے ہیں کہ اتنی قربت کیوں ہے کہ ہر ساکت و غیر ساکت شے پر وزیرِ اعلی کی مسکراتی تصویر چسپاں ہے

ہم کون لوگ ہیں؟

جب حکمران خاردار چار دیواری کے پیچھے اپنی ذات کے خول میں بند ہوں تب بھی ہم ناخوش کہ انھیں تو کسی کی پرواہ ہی نہیں۔ جب حکمران عوامی انداز اختیار کر کے گھل مل جائیں اور ایفیشنسیاں دکھائیں تب بھی ہم ایک حاسدانہ ناخوشی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ دیکھو دیکھو یہ وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلی، وزیر اور منتخب رکن کیسا نرگسیت کا مارا ہے۔ فوٹو کھنچوانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ باتیں زیادہ، کام کم اور کام بھی اس نیت سے کہ اس کا کتنا سیاسی یا ذاتی فائدہ پہنچے گا۔

ہم ناشکروں کو بس بتنگڑ بنانے کی مصروفیت چاہیے۔

مثلاً میرے محلے میں دو مین ہولز کے آہنی ڈھکن بہت عرصہ پہلے نشہ بازوں نے چرا لیے۔ بچوں کی سلامتی کے لیے اہلِ محلہ نے ان مین ہولز میں جھاڑیاں لگا دیں تاکہ دور سے نظر آئیں۔ پھر ایک خدا ترس کاؤنسلر نے بھاگ دوڑ کر کے ان مین ہولز پر سیمنٹ کے ڈھکن لگوا دیے اور ان ڈھکنوں کے افتتاح کا فیتہ کاٹ کر تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی۔

وہی لوگ جو پہلے کھلے مین ہولز کی مذمت کر رہے تھے، اب اس فیتے والی افتتاحی تصویر کو چھچھور پن قرار دے کے غریب کاؤنسلر کے پیچھے پڑ گئے۔ بے شک انسان ناشکرا ہے۔

اب اسی قماش کے سوشل میڈیائی حکومتِ پنجاب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ جب پنجاب سپیڈ کے بانی شہباز شریف وزیرِ اعلی تھے تو بھی اعتراض تھا کہ بارش رُکتے ہی یہ بندہ ربڑ کے لمبے بوٹ پہن کے رُکے ہوئے پانی میں کیوں چلنا شروع کر دیتا ہے۔ یا کسی ہسپتال اور سکول کے اچانک ہنگامی دورے کی خبر فوٹو گرافروں کو پیشگی کیسے مل جاتی ہے؟

اور پنجاب کے ہر موڑ پر خادمِ اعلی اول (بڑے میاں صاحب) اور دوم کے بڑے بڑے ہورڈنگز کیوں لگے ہوئے ہیں؟ رمضان پیکج کے آٹا تھیلوں پر حکومتِ پنجاب کے سرکاری ٹھپے کے ساتھ نواز شریف کیوں موجود ہے؟ ہر نئے طبی مرکز کا نام شریف میڈیکل کمپلیکس یا ہسپتال یا کلینک کیوں ہے؟ سرکاری پیسے کی مٹھائی پر دادا جی کی فاتحہ آخر کیوں؟

ایسے ایسے ناقابلِ تحریر گھٹیا گھٹیا تبصرے ان گناہ گار کانوں نے سنے کہ اللہ معافی۔ زیادہ تر تبصرے باز وہ ویہلے ہیں جن کی اپنے گھروں میں اتنی ویلیو ہے کہ سارا سارا دن باہر تھڑے پر یا نائی کی دکان پر بیٹھ کے ہر فارغ سے باتیں کر کے اس انتظار میں ٹائم پاس کرتے ہیں کہ رات کو جب سب سو جائیں تب دبے پاؤں گھر میں داخل ہوں۔

پہلے کہتے تھے کہ حکمرانوں اور عوام میں بہت فاصلہ ہے۔ اب کہتے ہیں کہ اتنی قربت کیوں ہے کہ مسجد کی دیوار، جانوروں کے علاج کیمپ کے تنبو، خشک راشن کے کارٹن، ہر سڑک کے موڑ، پل، چوراہے، ہوٹل، کھمبے، درخت، جنگلے، ٹھیلے، ڈمپر اور بس سمیت ہر ساکت و غیر ساکت شے پر وزیرِ اعلی کی مسکراتی تصویر چسپاں ہے۔

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں

جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

(جون ایلیا)

شکر کیجیے کہ اب بھی اس ملک میں اتنی آزادی ہے کہ آپ کو جو بات اچھی نہیں لگ رہی وہ آپ برملا کہہ پا رہے ہیں۔

کسی عرب، ایفرو ایشیائی یوریشیائی ملک، کسی کیمونسٹ سلطنت، کسی نظریاتی و غیر نظریاتی، لبرل و غیر لبرل فاشسٹ دیس میں اگر آپ کسی حکمران یا کسی معرکہِ حق کے بھرمار پوسٹروں پر انگشت نمائی کا سوچتے بھی تو آپ کی گردن آپ کے ہاتھوں پر رکھ دی جاتی۔

موجودہ پنجاب حکومت کی شاندار کارکردگی کی پہلی سالگرہ پر چینلز پر اشتہارات کی بھرمار اور نوے نوے صفحات کے ضمیمے بھی یار لوگوں کو ہضم نہیں ہوئے۔

پھر وزیرِ اعلی کے دورۂ جاپان پر تو یوٹیوبروں نے گویا ایسی ہا ہا کار مچائی گویا وہ ٹوکیو نہیں دلی چلی گئی ہوں۔

حاسدینیہ کیوں نہیں سوچتے کہ اتنا مصروف صوبائی عہدیدار محض سیر و تفریح کے لیے کسی ترقی یافتہ ملک میں ایک ہفتہ کیوں گزارے گا؟ کیا وزیرِ اعلی نے اپنے ذاتی پیسے سے کبھی کوئی ملک نہیں دیکھا؟ کچھ تو خدا کا خوف کیجیے۔ اندھی مخالفت آپ کی صحت کے لیے ہی مضر ہے۔

Getty Images
Getty Images
ہو سکتا ہے دوسری صوبائی حکومتوں نے بھی چند اچھے کام کیے ہوں مگر ان کے محکمۂ اطلاعات و نشریات کا پبلسٹیاور سوشل میڈیا ونگ ہی نااہل ہو

موجودہ اور سابقہ پنجاب حکومتوں نے کچھ تو کام کیے ہوں گے جن کا بار بار ذکر از بس ضروری ہے۔ دیگر صوبائی حکومتوں کو اپنی شاندار کارکردگی شو کیس کرنے سے کس ایجنسی نے روکا ہے؟

ہو سکتا ہے دوسری صوبائی حکومتوں نے بھی چند اچھے کام کیے ہوں مگر ان کے محکمۂ اطلاعات و نشریات کا پبلسٹیاور سوشل میڈیا ونگ ہی نااہل ہو۔ یہ نیکی کر دریا میں ڈال کا دور نہیں۔ کچھ کرنا بھی پڑتا ہے اور پھر کوڑھ مغز جنتا کو باور کرانے کے لیے ہر ممکنہ چینل استعمال کر کے بار بار اور بہت زیادہ بتانا اور سمجھانا بھی پڑتا ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ سمجھنے کا ہے کہ موجودہ تیز رفتار حکومت اپنی مثالی محنت کی تشہیر کے مثبت نتائج سے بھی حوصلہ پکڑتی ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایک پرائمری سکول کے کلاس روم کی ریل دیکھی۔ استاد نے ایک بچے سے پوچھا پاکستان کس نے بنایا؟ جواب ملا مریم نواز نے۔ پاکستان کا وزیرِ اعظم کون ہے؟ مریم نواز۔

عین ممکن ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ جوابات درست نہ ہوں۔ مگر کم ازکم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ بچہ بچہ وزیرِ اعلی کی کارکردگی اور شخصیت کے سحر سے بفضلِ مارکیٹنگ برائے کارکردگی کتنی محبت کرتا ہے۔

پاکستان میں ویسے بھی پتا نہیں ہوتا کہ کس منتخب یا چنتخب حکومت کی کب قضا آ جائے۔

اس سے پہلے کہ کسی ٹرک کے پیچھے دھندلی سی تصویر پر لکھا ہو ’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔ جلنے والے کا منھ کالا‘، بقول فہمیدہ ریاض ’تم اپنی کرنی کر گزرو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘

کچھ تو لوگ کہیں گے۔ لوگوں کا کام ہے کہنا۔ چھوڑو بیکار کی باتوں کو۔ کہیں بیت نہ جائے رینا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US