پلائی ووڈ کے ٹینک، نقلی ڈرونز اور فوجیوں کے پتلے: یوکرین اور روس ایک دوسرے کو کیسے فریب دے رہے ہیں؟

یہ فوجی سازوسامان کے ہزاروں مکمل ماڈلز میں سے ایک ہے جو یوکرین اور روس دونوں کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ دشمن کا قیمتی گولہ بارود وقت اور محنت ضائع کی جا سکے۔

جون 2023 میں جنگ کے حامی روسی سوشل میڈیا چینلز پر ایک ویڈیو وائرل ہونا شروع ہوئی جس میں بظاہر ایک ڈرون کو یوکرین کے ایک ٹینک کو بڑے دھماکے میں تباہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

لیکن سب کچھ ایسا نہیں ہے جیسا کہ روس یوکرین جنگ میں نظر آتا ہے۔

اس ویڈیو کے بعد یوکرین کی جانب سے اسی واقعے کی فوٹیج جاری کی گئی جس میں ایک مسکراتے ہوئے فوجی کو جلتے ہوئے ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھایا گیا جو یہ کہہ رہا تھا کہ ’اُنھوں نے میرے لکڑی کے ٹینک کو تباہ کر دیا۔‘

یہ لکڑی سے بنا ایک ٹینک تھا جسے یوکرین کی افواج روسیوں کو چکمہ دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یہ فوجی سازوسامان کے ان ہزاروں مکمل ماڈلز میں سے ایک ہے جو یوکرین اور روس دونوں کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ دشمن کا قیمتی گولہ بارود، وقت اور محنت ضائع کی جا سکے۔

ان مصنوعی ہتھیاروں میں فرنٹ لائنز پر نظر آنے والی تقریباً ہر چیز ہے جس میں چھوٹے ریڈارز اور گرنیڈ لانچروں سے لے کر جیپیں، ٹرک، ٹینک اور جعلی فوجی تک شامل ہیں۔

یہ مصنوعی چیزیں فلیٹ پیکس یعنی تیزی سے جوڑنے والے مواد یا ٹو ڈی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی بنائی جاتی ہیں۔ جبکہ ریڈار کے ذریعےریڈیو لہروں کو خاص طریقے سے منعکس کرکے ٹینک دکھائی دینے والا عکس بھی بنا سکتی ہیں۔

یوکرین کی جانب سے میدان جنگ میں نصب کیَے جانے والے کچھ ہتھیاروں میں سے کم از کم نصف نقلی ہیں۔

’فلیٹ پیک‘ توپ خانہ

سب سے زیادہ استعمال ہونے والے مصنوعی ہتھیاروں میں یوکرینی فوج برطانوی ساختہ ایم 777 ٹینک استعمال کرتی ہے۔ مغربی اتحادیوں نے جنگ کے دوران یوکرین کو ایسے 150 ٹینکس فراہم کیے تھے۔ انھیں یوکرینی فوجی ’تھری ایکسز‘ کا نام دیتے ہیں۔

یوکرین فوج کو ایسے مصنوعی ہتھیاروں کی تیاری میں مدد دینے والے رضا کاروں کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔

’ناچاسی‘ نامی رضا کار گروپ کے رسلان کلیمینکو کہتے ہیں کہ ان کے گروپ نے ایم 777 کے تقریباً 160 ماڈلز تیار کرکے یوکرینی فوج کے حوالے کیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں فرنٹ لائن تک پہنچنے میں صرف تین منٹ لگتے ہیں جبکہ صرف دو رضاکاروں کی ضرورت ہے۔ اس دوران اُنھیں کسی قسم کے اوزار بھی درکار نہیں ہوتے۔

ایک اور رضاگروپ کےپاولو ناروزنی کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایم 777 کے 10 سے 15 ڈیکوے (نقل) تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔

اُن کے بقول پلائی وڈ اور فلیٹ پیک سے بنے ان نقلی ٹینکس کی تیاری میں 500 سے 600 ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ روس اکثر انھیں کاماکازی خودکش ڈرونز کے ذریعے نشانہ بناتا ہے جس کی تیاری میں 35 ہزار ڈالر لاگت آتی ہے۔

ناروزنی کا دعویِ ہے کہ ایم 777 کا ایک ماڈل ایک برس تک میدان جنگ میں موجود رہا اور اس پر روس نے ڈرونز کے ذریعے کم از کم 14 حملے کیے۔

وہ کہتے ہیں کہ فوجی اسے چپکنے والے ٹیپ اور کچھ پیچوں کے ذریعے آگے پیچھے حرکت دیتے رہتے ہیں جس سے دُشمن کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ٹینک آگے بڑھ رہا ہے۔

مصنوعی فوجی اور بیت الخلا

بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ نقلی ہتھیار یا ڈیکوے کو کیسے تعینات کیا جاتا ہے۔

دشمن کے اسلحے کو ضائع کروانے کے لیے گولہ بارود کے کریٹس، بیت الخلا اور حتیِ کے نقلی فوجیوں کو ایسے پوزیشن کیا جاتا ہے کہ یہ ناصرف دُشمن بلکہ یہاں دورے پر آنے والے فوجی افسران کو بھی چکمہ دے سکتا ہے۔

یوکرینی فوج میں بریگیڈ کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک افسر دورے پر آئے اور وہ بھی دیکھ کر دھوکہ کھا گئے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’یہاں توپ خانہ تعینات کرنے کا حکم کس نے دیا؟ یہ اتنے سارے ایم 777 کہاں سے آئے؟‘

روس کے پاس فریب دینے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی نہایت وسیع اور متنوع ہے۔

یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ حالیہ روسی فضائی حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرونز میں سے تقریباً نصف اصل نہیں بلکہ سستے نقلی ڈرون ہوتے ہیں۔

یوکرینی فضائیہ کے ترجمان یوری انہات کے مطابق ’اب معاملہ بالکل برابر کا ہے۔ آدھے ڈرون اصلی ’شاهد‘ ہوتے ہیں اور آدھے ان کی نقل۔ ان کا مقصد ہماری فضائی دفاعی صلاحیتوں کو الجھانا اور ہمیں اس بات پر مجبور کرنا ہوتا ہے کہ ہم ایک مہنگا میزائل ایسے ڈرون پر ضائع کر دیں جس کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض اوقات یہ محض پلائی ووڈ سے تیار کردہ ایک کھلونا نما ڈھانچہ ہوتا ہے جو دیکھنے میں یوں لگتا ہے جیسے کسی سکول کے بچوں نے بنایا ہو۔‘

تاہم انہات کا کہنا ہے کہ فضا میں پرواز کرتے وقت یہ نقلی ڈرون ریڈار پر بالکل ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے اصل مہلک ’شاھد‘ ڈرون۔

روس کی ایک کمپنی ’روس بال‘ مختلف اقسام کے ڈمی اور ڈیکوئے تیار کرتی ہے جن میں فضائی انٹیلی جنس کو گمراہ کرنے والے ٹو ڈی ڈیکوئے، انجن کی حرارت یا فوجی وائرلیس کی ریڈیو لہروں کی نقل کرنے والے آلات اور ریڈار کو دھوکہ دینے والے ریفلیکٹر شامل ہیں۔

حتیٰ کہ نقلی فوجی اہلکار بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ نووسیبیرسک میں کریملن نواز ’پیپلز فرنٹ‘ تحریک کے رضاکاروں نے فوجی وردیاں پہنے ہوئے ڈمیز بنائے ہیں۔ یوکرینی تھرمل کیمروں کو دھوکہ دینے کے لیے ان کے دھڑ پر جیکٹ کے نیچے حرارت پیدا کرنے والی تار لپیٹی جاتی ہے تاکہ انسانی جسمانی حرارت کا تاثر دیا جا سکے۔

لیکن جنگ میں ڈمی یا فریب کا استعمال کوئی نیا طریقہ نہیں ہے۔

ڈی ڈے لینڈنگ کی تیاری کے دوران برطانیہ میں ایک مکمل فرضی فوجی دستہ قائم کیا گیا تھا جسے نقلی ٹینکوں اور ڈمی طیاروں سے لیس کیا گیا۔

یہ سب ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھا تاکہ اصل زمینی صورتحال کو چھپایا جا سکے اور اتحادی افواج کو وہ حیرت کا عنصر حاصل ہو جو دشمن پر اچانک حملے کے لیے ضروری تھا۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے عسکری ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی ہو چکی ہے۔ آج ڈرون اور بغیر پائلٹ کے جدید نظام میدانِ جنگ میں ایک انقلابی ہتھیار سمجھے جاتے ہیں۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ چاہے میدانِ جنگ میں کتنے ہی نئے اور تباہ کن ہتھیار کیوں نہ آ جائیں، فریب اور دھوکہ ہمیشہ جنگ کا حصہ رہیں گے۔۔۔ چاہے وہ ایک ربڑ کے پھولنے والے پتلے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US