دریائے چناب میں حالیہ دنوں میں دس لاکھ 86 ہزار کیوسک پانی کا بڑا ریلا گزرا ہے لیکن چناب سے گجرات شہر کی طرف پانی نہ آیا۔ گجرات کے دوسری طرف برساتی نالہ ہیلسی اور نالہ بھمبھر گزرتے ہیں جوکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آتے ہیں۔
گجرات سے برساتی نالے ہیلسی اور بھمبھر گزرتے ہیںعنایت بی بی اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ گجرات کے محلہ شفیع آباد میں رہ رہی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران جب بیرون ملک سے ان کے شوہر کا فون آیا تو اس وقت ان کے گھر کا سامان پانی میں بہہ رہا تھا اور ان کی بیٹیاں یہ سب دیکھ کر رو رہی تھیں۔
عنایت بی بی کے ساتھ ان کے شوہر بھی اپنی بیٹیوں کو تسلیاں اور دلاسے دے رہے تھے۔
عنایت بی بی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جب گجرات شہر میں پانی آیا تو رات دس، گیارہ بجے ہمارے پورے محلے میں شور مچ گیا، پانی اس قدر زیادہ تھا کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
’ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہمارے گھر کے اندر چار سے پانچ فٹ پانی داخل ہو چکا تھا، ہم لوگ مکان کی بالائی منزل کی طرف بھاگے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ بُدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جب موسلادھار بارش اور پہاڑوں سے گرنے والے پانی کے سبب جب ہیلسی اور بھمبھر نالے بپھر گئے تو ایسے میں پانی کی شدت سے مدینہ سیداں میں ڈی سی بند بھی ٹوٹ گیا، جس سے لگ بھگ چالیس دیہات زیرآب آگئے اور پانی نے اندرون شہر گجرات کا رخ کر لیا۔
عنایت بی بی کے مطابق ’ہمارے گھر کا کچن گراؤنڈ فلور پر ہے، جب پانی آیا تو کچن کا سارا سامان پانی میں بہہ گیا، یہی نہیں بلکہ دونوں کمروں اور ڈرائنگ روم میں موجود بیشتر اشیا پانی میں بہہ گئیں، ہم مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے اپنے اجڑنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔
’میری دونوں بیٹیاں رونے لگیں کہ اب کیا ہوگا، اس دوران ان کے والد کی بھی فون کال آئی اور وہ بیٹیوں کو دلاسا دیتے رہے اور کہنے لگے کہ پریشان نہ ہوں اللہ تعالیٰ بہتری کرے گا۔‘
گذشتہ بدھ اور جمعرات کو شہر میں پانی داخل ہو گیا تھاعنایت بی بی کہتی ہیں کہ ’سارا دن بھوک میں گزر گیا، ہم پریشانی کے ساتھ اس مشکل میں بھی تھے کہ کس سے مانگیں اور کس طرح کہیں کہ ہمیں کچھ کھانے کے لیے لا دو، رات آئی تو بھوک نے ستانا شروع کر دیا۔‘
عنایت بی بی کے شوہر بیرون ملک مقیم ہیں اور انھیں اس سے قبل کبھی اخراجات پورے کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن اس سیلابی صورتحال میں وہ بھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گئیں۔
ان کے مطابق ’جمعے کی رات ہم نے شدید بھوک میں جاگ کر گزاری‘ اور رفاحی تنظیمالخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کی طرف سے بریانی کے ڈبے، پانی کی بوتلیں اور جوس ہفتے کی صبح 10 بجے ہی ان تک پہنچ سکا۔
’یہ رضاکار ایک کشتی پر سوار ہو کر آئے تھے، کھانے کا سامان دیکھ کر ہماری آنکھوں میںآنسو آ گئے کہ ایک انسان بیٹھے بٹھائے کس قدر بے بس ہو جاتا ہے کہ عرش سے فرش پر آجاتا ہے، کم از کم ہمارے ساتھ تو کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔‘
گجرات میں ایسے مناظر ہر طرف دیکھنے میں آئے ہیں۔نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر گروپس بنا کر خواتین، بزرگوں اور ضرورت مندوں کی مدد شروع کی ہے۔
کشمیر سے آنے والے بارش کے پانی نے گجرات میں تباہی مچائی
کشمیر میں گذشتہ ہفتے موسلادھار بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے بعد پانی تیزی سے نیچے کی طرف آیادو دریاؤں کے درمیان بسنے والے شہر گجرات کے ایک طرف وسیع وعریض دریائے چناب اور دوسری طرف دریائے جہلم ہے، جسے چج دو آب کہا جاتا ہے۔
دریائے چناب میں حالیہ دنوں میں دس لاکھ 86 ہزار کیوسک پانی کا بڑا ریلا گزرا ہے لیکن چناب سے گجرات شہر کی طرف پانی نہ آیا۔ گجرات کے دوسری طرف برساتی نالہ ہیلسی اور نالہ بھمبھر گزرتے ہیں جوکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آتے ہیں۔
گجرات شہر دریائے چناب کے پانی سے تو بچ گیا مگر دونوں نالوں کے پانی سے نہیں بچ سکا، اس شہر میں اس کے علاوہ چار چھوٹے نالے ہیں، جن میں دواڑا نالہ، نالہ بھنڈر، نالہ جلالپور جٹاں اور برساتی نالہ شامل ہیں۔
کشمیر میں گذشتہ ہفتے موسلادھار بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے بعد پانی تیزی سے نیچے کی طرف آیا جوکہ دو ستمبرکو گجرات کے نالوں میں بھرنا شروع ہوا تو شاید کسی نے اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا، لیکن اگلے روز یعنی بدھ کو جب نالے بھر گئے اور کشمیر سے آنے والا پانی نالوں سے اُبل اُبل کر شہر میں داخل ہونا شروع ہوا تو سب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔
گذشتہ سال 2024 میں بھی انھی دنوں تقریباً ایک ہفتے تک شہر کے پانچ سے 10 فیصد شہری علاقے زیر آب رہے تھے۔
گجرات کے مقامی صحافی عبدالسلام مرزا بتاتے ہیں کہ گذشتہ بدھ کی شام برساتی پانی پورے گجرات میں پھیل چکا تھا اور اس کی سطح تیزی سے بلند ہونا شروع ہو گئی تھی، ساری رات پانی تیزی سے آتا دکھائی دیا اور کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ پانی کی نکاسی کیسے اور کب ہو گی۔
’جمعرات کی صبح گجرات ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں شور مچ گیا کہ گجرات ڈوب چکا ہے، کیونکہ جن لوگوں کے رشتے دار گجرات میں رہتے ہیں انھوں نے اپنے گھروں اور گلیوں کی تصویریں اور کلپس بنا کر سب رشتے داروں کو بھجوائیں اور معاملہ سوشل میڈیا پر پھیل گیا۔‘
گجرات کے ڈسٹرکٹ جیل سے ایک ہزار 860 قیدیوں کو دوسرے جیلوں میں منتقل کیا گیاوزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پانچ ستمبر جمعے کے روز ہنگامی دورے پر گجرات پہنچیں جس کے بعد انتظامی مشینری فعال ہوئی اور پانچ صوبائی محکموں کے سیکریٹریز اپنے عملے کے ہمراہ گجرات آئے۔
اس کے علاوہ پانچ بڑے شہروں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور جہلم سے واسا کا عملہ بھی گجرات بلا لیا گیا جبکہ گجرات میں واسا کے قیام کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
عبداسلام کے مطابق ’کیا ہی بہتر ہوتا اگر یہ سب کام پہلے سے کر لیے جاتے تو گجرات کے شہری نہ ڈوبتے۔‘
ترجمان ضلعی انتظامیہ کے مطابق گجرات شہر کے بڑے حصے سے پانی کی نکاسی کر دی گئی ہے۔
تاہم قمر سیالوی روڈ، محلہ شاہ حسین، شفیع آباد، بخشو پورہ، خواجگان روڈ، سٹیشن روڈ، علی پورہ روڈ، جیل روڈ ، رحمان شہید روڈ میں کئی کئی فٹ پانی ابھی بھی موجود ہے۔
متاثرہ علاقوں میں ایک ہفتہ گزرنے کے بعد پانی کی سطح میں کمی ضرور آئی ہے تاہم اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں میں نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ گھروں سے باہر آنے جانے سے قاصر ہیں۔
یہی نہیں جن علاقوں میں پانی کی نکاسی ہوچکی ہے وہاں بدبو اور تعفن سے برا حال ہے۔
اس بارے میں ضلعی انتظامیہ دعویٰ کررہی ہے کہ ستھرا پنجاب کے اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں جوکہ ڈبل شفٹ پر کام کر رہے ہیں اور اگلے چند روز میں صورتحال معمول پر آ جائے گی۔
یہ بھی اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ ہے کہ سیلابی پانی کے باعث پوری ڈسٹرکٹ جیل خالی کردی گئی ہے اور جیل کے ایک ہزار 860 قیدی گوجرانوالہ، لاہور، نارووال کے اضلاع کی جیلوں میں بھجوا دیے گئے ہیں۔

گجرات میں نکاسی آب کے 21 ارب کے منصوبے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ
گجرات میں تباہی کے بعد اب انتظامیہ نے شہر میں سیوریج کے جدید نظام پر بلاتاخیر کام شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
کمشنر گوجرانوالہ نوید حیدر شیرازی کہتے ہیں کہ گجرات میں نکاسی آب اور سیوریج کے جدید نظام کے لیے پہلے سے منظور شدہ 21 ارب روپے کے پیکیج پر بلا تاخیر عملدرآمد شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
ان کے مطابق منصوبے کے تحت مستقبل میں نکاسی آب کا جدید انفراسٹرکچر تعمیر ہوگا اور انجینئرنگ کے جدید خطوط پر سیلابی نالوں کا پورا نظام بنے گا۔
کمشنر نے بتایا کہ گجرات سے سیلابی پانی کے مکمل انخلا تک سرکاری افسران اور عملے کو فیلڈ میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ان کے مطابق مدینہ سیداں کے حفاظتی بند میں شگاف کے سبب سیلابی پانی کے نکاس میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’مدینہ سیداں میں جمع ہونے والا پانی سرکاری مشینری اور مقامی لوگوں کی مدد سے ہیلسی ندی کی طرف موڑا جا رہا ہے اور عملہ مقامی آبادی کی مدد سے شہر میں مزید پانی داخل ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
گجرات میں ایک ہفتے تک نکاسی آب کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ رہی جس میں نوجوانوں کے مختلف گروپس نے رضاکارانہ طور پر شہریوں کی خدمت کی۔
محلہ شاہ حسین میں رضاکاروں کے ایک گروپ نے فوری طور پر واٹس ایپ گروپ بنایا اور اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کو شامل کیا گیا۔
ایک رضاکار جہانزیب احمد نے بتایا کہ وہ شیشہ اور ایلومینیم کی کھڑکیوں کا کام کرتے ہیں۔ ’جب علاقے میں بہت زیادہ پانی آ گیا تو سب کو یہی لگا کہ اب مشکل جلد نہیں ٹلے گی جس پر سب دوستوں نے بھاگ دوڑ شروع کردی اور ہمیں دیکھ کر مزید لوگ بھی ساتھ مل گئے۔‘