انڈیا کی ’200 برس پرانی‘ مسجد جس میں ہندو اذان دیتے ہیں: ’میں نے سوچا یہ اللہ کا گھر ہے اسے آباد رہنا چاہیے‘

اس علاقے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کئی مساجد ایسی ہیں جن کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی آبادی نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں مساجد اب بھی موجود ہیں اور ان مساجد میں اذان بھی روزانہ کی بنیادوں پر دی جاتی ہے۔

انڈیا کی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے متصل علاقے ’مگدھ‘ کے نام سے معروف ہیں اور اس علاقے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کئی مساجد ایسی ہیں جن کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی آبادی نہیں ہے۔

مسلمانوں کی عدم موجودگی کے باوجود یہاں کئی مساجد کو مقامی ہندو کمیونٹی نے ناصرف آباد رکھا ہوا ہے اور چند میں اذان بھی روزانہ کی بنیادوں پر دی جاتی ہے۔

یہ مساجد کئی دہائیاں پرانی ہیں۔ عام لوگ اپنے اس ورثے کے تحفظ کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

اگرچہ اس علاقے میں بسنے والے ہندو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے مسلم عبادت گاہ کو محفوظ رکھنے کا ذمہ خود اٹھایا ہوا ہے۔

اس علاقے کے رہائشی اجے پاسوان نے اپنے دو دوستوں بکاؤری بند اور گوتم پرساد کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں ’ماڑی‘ میں واقع مسجد کو آباد رکھا ہوا ہے۔

بہار شریف، نالندہ ضلع کا صدر مقام ہے، جو بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے تقریباً 80 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ جب ہم بہار شریف کی کشادہ سڑکوں سے اندرونی علاقوں میں جاتے ہیں تو کچے راستوں سے ہوتے ہوئے ماڑی گاؤں پہنچتے ہیں۔

گاؤں میں مسلسل تعمیر ہونے والے اونچے اور کنکریٹ کے مکانات کے درمیان دہائیوں پرانی مسجد کا گنبد دور سے نظر آتا ہے۔ قریب پہنچنے پر ہمیں اجے پاسوان نام کا ایک نوجوان مسجد کے برآمدے میں جھاڑو لگاتا ہوا نظر آیا۔

ہمیں دیکھ کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے میں مسجد کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں، کھانا نہیں کھاؤں گا لیکن مجھے یہیں خدمت کرنی ہے۔

دراصل یہ کہانی 15 سال پہلے شروع ہوئی تھی جب اجے اور ان کے دو دوست اس قدیم مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے۔

ماڑی گاؤں کے رہنے والے یہ لوگ اپنی روزی کمانے کے لیے مزدوری کرتے ہیں۔

اجے بھی بطور مزدور کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک دن میں اور میرا دوست یہاں سے گزر رہے تھے اور ہمیں لگا کہ مسجد کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے۔ یہاں بہت جھاڑ جھنکار تھا، جنگل تھا۔ ہم مزدور ہیں اس لیے صفائی کا سارا کام ہم نے خود کیا۔‘

اُن کے مطابق ’پہلے ہم نے مسجد کا فرش بنایا، جنگل صاف کیا، پھر دیواروں کو پلستر کیا اور پینٹ کیا۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ یہ اللہ کا گھر ہے تو اسے روشن ہونا چاہیے۔ اس لیے میں نے شام کو یہاں چراغ جلانا شروع کر دیا، اگربتیاں جلانا شروع کیں۔ پھر مجھے لگا کہ یہاں اذان بھی دی جانی چاہیے۔ چنانچہ میں لاؤڈ سپیکر لایا اور ’یو ایس بی‘ کی مدد سے اذان دینا شروع کر دی (یعنی اذان کی ریکارڈ شدہ آواز کو لاؤڈ سپیکر کے ذریعے نشر کیا)۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شاید اللہ نے سوچا تھا کہ وہ ہم سے کام کروا لے گا، اس لیے اس نے کروا لیا۔ ہم نے سارا کام اپنے خرچے پر کیا۔‘

200 سال پرانی مسجد

ماڑی گاؤں میں اب کوئی مسلمان خاندان نہیں رہتا۔ انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے دوران مسلمان یہ گاؤں چھوڑ کر جانا شروع ہوئے اور پھر تمام مسلمان یہاں سے کُوچ کر گئے۔

یہ مسجد کتنی پرانی ہے اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے لیکن ماڑی گاؤں کے لوگوں کے مطابق یہ مسجد 200 سال پرانی ہے۔ اس مسجد کے قریب ایک مقبرہ بھی ہے جہاں گاؤں کے لوگ کوئی بھی اچھا کام شروع کرنے سے پہلے آتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔

کسم دیوی اس قدیم مسجد کے بالکل پاس رہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس گاؤں میں کوئی مسلمان نہیں رہتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسجد ایسی ہی رہے گی۔ ہم سب یہاں کام کرتے ہیں۔‘

اُن کے مطابق ’اگر کوئی اچھا کام ہو تو دیوی ستھان جانے سے پہلے لوگ یہاں سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد لوگ دیوی ستھان جا کر پوجا کرتے ہیں اور شادی انجام پاتی ہے۔‘

اجے پاسوان بطور مزدور کام کرتے ہوئے روزانہ 500 روپے کی کمائی کر لیتے ہیں۔

جب ان سے مسجد کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم گاؤں والوں سے کچھ نہیں لیتے، کوئی مسجد دیکھ کر آئے اور 50-100 روپے دے دے تو الگ بات ہے۔‘

اُن کے مطابق ’میری والدہ، بیوی اور بچے بھی کچھ نہیں کہتے کیوںکہ میں اپنا پیسہ کسی نشے پر خرچ نہیں کرتا بلکہ مذہبی جگہ پر خرچ کرتا ہوں۔‘

اُن کے مطابق ’اتنے سال گزر جانے کے باوجو حکومتی نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں سمیت کسی نے بھی اس مسجد کی دیکھ بھال نہیں کی۔ ہم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ہم زندہ ہیں، مسجد کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘

مگدھ کے علاقے میں مساجد

بہار کے مگدھ علاقے میں کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں مسلم کمیونٹی کے لوگ نہیں رہتے۔ لیکن ان علاقوں میں پرانی مساجد ہیں۔

ان میں سے کچھ مسجدیں تجاوزات کی نذر بھی ہو چکی ہیں، کچھ خستہ حال ہونے کے باعث زمین بوس ہو گئیں، کچھ کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں جبکہ چند کو مقامی لوگوں نے جانوروں کے باڑوں میں بدل دیا۔

یہ مساجد اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ کسی زمانے میں ان دیہاتوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی رہی ہو گی۔

مگدھ کا علاقہ وہ علاقہ ہے جہاں مگہی زبان بولی جاتی ہے۔ پٹنہ، گیا، نالندہ، نوادہ، شیخ پورہ، اروال وغیرہ اضلاع مگدھ کی حدود میں آتے ہیں۔

سنہ 1946 میں جب نواکھلی کا علاقے، جو اب بنگلہ دیش میں واقع ہے، میں فسادات پھوٹ پڑے تو اس کے نتیجے میں بہار میں بھی فسادات کا آغاز ہوا جن کا مرکز مگدھ تھا۔

تقسیم کے وقت ریاست بہار میں مسلم لیگ کی سیاست زیادہ مضبوط نہیں تھی۔

بہار قانون ساز اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق 1937 میں جب ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ‘ کے تحت صوبائی انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ نے موجودہ ریاست بہار میں صرف دو سیٹیں جیتی تھیں۔

صوبائی حکومت میں گورنر کی مداخلت کے معاملے پر کانگریس نے یہاں حکومت بنانے سے انکار کر دیا، جس کے بعد بہار مسلم آزاد پارٹی کے محمد یونس نے یہاں حکومت بنائی، جس نے 20 سیٹیں جیتی تھیں۔

معروف مؤرخ اور خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے سابق ڈائریکٹر امتیاز احمد بتاتے ہیں کہ ’1937 کے بعد جب کانگریس نے محمد یونس کے ساتھ برا سلوک کیا تو اس سے مسلمانوں میں ناراضگی پیدا ہوئی۔ پھر (بانی پاکستان محمد علی جناح) کئی بار یہاں آئے، ممبر سازی کی مہم چلائی اور بہار میں بھی مسلم لیگ مضبوط ہوئی۔

اس علاقے میں تقسیم بڑھی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہاں فسادات ہوئے مگر اس کی بڑی وجہ بنگال کی سیاست تھی جس سے بہار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

خدا بخش کے مطابق ’ایک وجہ یہ تھی کہ بنگال ہماری پڑوسی ریاست تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بہار میں پہلے سے ہی کافی کشیدگی تھی اور تیسری وجہ یہ تھی کہ بہار میں زرعی زمینوں کے بہت سے مالکان مسلمان تھے۔‘

ان کے مطابق ’ان علاقوں (مگدھ) کی دوسری مضبوط ذاتیں ان زمینوں پر اپنا حق چاہتی تھیں۔ اور ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ کسی طرح ان زمینداروں کو علاقے سے باہر نکال دیا جائے۔ فسادات ہوئے اور اس کے بعد مسلم لیگ کے اہم رہنما خواجہ ناظم الدین پٹنہ آئے اور یہ اعلان کیا کہ اب ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے۔‘

مگدھ کے علاقے میں ہونے والے فسادات نے تقسیم ہند میں اہم کردار ادا کیا۔

’تباہ شدہ مسجد اور ہمارا اندرونی زوال‘

مگدھ میں ان فسادات کا اثر ایسا ہے کہ آج بھی بہت سے بزرگ 1946 کو ’میانماری کے سال‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

پٹنہ کا کھربھیا گاؤں آزادی سے پہلے مسلم اکثریتی گاؤں تھا۔

مقامی معلم گیتا کماری کے گھر کے سامنے 100 سال پرانی مسجد ابھی بھی اپنی صحیح حالت میں موجود ہے۔ فسادات کے بعد کھربھیا گاؤں سے بھی مسلمانوں نے نقل مکانی کی تھی۔

گیتا کماری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم سب بہن بھائیوں کے بچپن کی خوبصورت یادیں اس مسجد سے وابستہ ہیں۔ یہ مسجد اس علاقے کی پہچان بنی اور آج بھی اس مسجد کا بتا کر کسی کو پتہ سمجھاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب مسلمان خاندان یہاں سے چلے گئے تو مسجد پہلے ویران ہوئی اور پھر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ میں نے اپنے بھائی کوشل کشور سے بات کی اور ہم نے مل کر مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا۔‘

تاہم اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ صرف مسجد میں اُگنے والی جھاڑیوں کی وقتاً فوقتاً صفائی کرنا پڑتی ہے۔

گیتا کا کہنا ہے کہ ’اس مسجد میں کوئی نہیں آتا۔ ہمارے پاس چابیاں ہیں۔ ہم اس کی صفائی کرتے رہتے ہیں۔ ہندو تہوار یا کوئی اور تہوار ہو تو ہم چراغ جلاتے ہی،ں جیسا کہ ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے۔‘

کیا آپ کے گھر والوں اور گاؤں والوں نے مسجد کی دیکھ بھال پر احتجاج نہیں کیا؟

اس سوال پر گیتا کہتی ہیں کہ 90 فیصد گاؤں والے خوش تھے کہ ایک مذہبی مقام کی حفاظت کی گئی ہے۔ جن کے ذاتی مفادات تھے، انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ جہاں تک اُن کے خاندان کا تعلق تھا تو ’ہم سب بھائی بہن ایک سیکولر ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ ہمارے گھر کو دیکھیں تو آپ کو اس کے فن تعمیر میں اسلامی طرز نظر آئے گا۔ بعد میں، ہم نے گاؤں کے قبرستان کو بھی باڑ لگوائی۔ تاکہ اگر کوئی اپنے آباؤ اجداد کی قبریں ڈھونڈتا ہوا یہاں آتا ہے تو وہ اسے یہاں سکون سے تلاش کر سکے۔‘

مندر میں شنکھ، مسجد میں اذان

جمعے کے روز نالندہ کے کیلا گاؤں سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر واقع دکان میں محمد اسماعیل تیزی سے پنکچر لگانے میں مصروف ہیں۔

دبلی پتلی جسامت کے مالک اسماعیل اپنا کام وقت پر ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے وقت پر پہنچ سکیں۔

اسماعیل کو کیلا گاؤں کی مسجد پہنچنا تھا۔ اس گاؤں میں کوئی مسلمان نہیں رہتا۔ اسماعیل یہاں اکیلے آتے ہیں اور دن میں پانچ بار اذان دے کر نماز پڑھتے ہیں۔

اسماعیل کا کہنا ہے کہ ’جب ہم کیلا گاؤں کے پاس سے گزرتے تھے تو لگتا تھا کہ مسجد بند ہے۔ یہ مسجد 50-60 سال سے بند تھی۔ اسے کھولا، جھاڑو دیا، اذان دی، دوسرے مسلمانوں کی مدد سے مسجد کی مرمت کی۔ اس کی باؤنڈری بنوائی۔‘

ان کے مطابق ’اب بھی ہم لوگوں سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور مسجد میں کام کرواتے ہیں۔ ہم نے اپنا گاؤں چھوڑ دیا ہے۔ ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بھی نہیں رہتے، لیکن یہ اللہ کا گھر تھا، اس لیے اسے آباد رکھنا ضروری تھا۔ جس طرح مندر میں شنکھ تو ایسے ہی مسجد میں اذان دینا ضروری ہے۔ اب میں ایسا کر کے بہت خوش ہوں۔‘

لیکن ہندوؤں کے اس گاؤں کے امن کو کبھی کسی نے خراب نہیں کیا ہے۔

اس سوال پر ریڈیو اور پرانے گانوں کے دلدادہ اسماعیل کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی نے ہمیں کھلایا پلایا نہیں تو کسی نے ہمیں پریشان بھی نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تنگ نہ کرنا ہی سب سے بڑا تعاون ہے جو ہندو ہم سے کر رہے ہیں۔ ہمیں بجلی اور پانی مل جاتا ہے، باقی ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔‘

بڑے شہروں سے دور بہار کے ان چھوٹے دیہات میں اجے، گیتا اور اسماعیل جیسے لوگ انڈیا کی مشترکہ ثقافت کی علامت ہیں۔

مؤرخ امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ہاں ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرنے کی روایت ہے۔ یہ حالیہ برسوں میں سیاسی وجوہات کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے، لیکن ہم اب بھی ایک دوسرے کے مذہب اور مذہبی مقامات کا احترام اور تحفظ کا معیار رکھتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US