جب انگریزوں نے ’کشتی کے ذریعے‘ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو لاہور تحفے میں گھوڑے بھیجے

سنہ 1832 کے معاہدے کے تحت برطانوی راج اور سکھ راج کے درمیان تجارتی روابط بڑھانے کے لیے سندھ اور ستلج کو تجارتی راہداری کے طور پر کھول دیا گیا۔ انگریزوں کی بحری قوت بننے میں دلچسپی کیوں تھی؟
سردار رنجیت سنگھ
Getty Images

سنہ 1831 میں بادشاہ ولیم چہارم نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو پانچ گھوڑے بطور تحفہ بھیجے تھے۔ یہ تحائف زمینی راستے کے بجائے کشتی کے ذریعے لاہور بھیجے گئے۔

اس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا سندھ اور پنجاب کے دیگر دریاؤں کو جہاز رانی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس جاسوسی مشن کی قیادت کیپٹن الیگزینڈر برنز کر رہے تھے۔

اس برطانوی جاسوسی مشن کا ذکر پیٹر ہاپکرک کی مشہور کتاب ’دی گریٹ گیم، سیکرٹ سروس ان ہائی ایشیا‘ میں کیا گیا ہے۔

پیٹر لکھتے ہیں کہ ’کچھ سے سندھ میں داخل ہونے کے بعد وہ پانچ ماہ بعد گھوڑوں کے ساتھ لاہور پہنچے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ لاہور تک دریا کے ذریعے بھی پہنچا جا سکتا ہے۔‘

انگریز افسروں نے منصوبہ بنایا کہ اگر مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی منظوری دے دیں تو برطانوی سامان لاہور سے بذریعہ سڑک افغانستان اور ترکستان بھیجا جا سکتا ہے۔

دو ماہ کے قیام کے بعد الیگزینڈر برنز برطانوی راج میں موسم گرما کے دارالحکومت شملہ پہنچے۔ ان کے مطابق انھوں نے یہ ثابت کیا کہ جنگی جہاز یا مال بردار جہاز لاہور پہنچ سکتے ہیں۔

اس کے بعد ان دریاؤں پر سٹیمرز یا کشتیوں کے آپریشن کی تیاری کا فیصلہ کیا گیا۔ حالانکہ پنجاب میں دریاؤں پر سامان کی نقل و حمل اور سفر کے لیے مقامی کشتیاں استعمال ہوتی تھیں۔

پنجاب کے دریائے ستلج، راوی، چناب اور جہلم آپس میں مل کر پنجند کے مقام پر اکھٹے ہوتے ہیں، اور مٹھن کوٹ کے مقام پر پنجند دریائے سندھ سے مل جاتا ہے، جو پھر بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔

دریائے بیاس مشرقی پنجاب میں ہریکے کے مقام پر ستلج سے جا ملتا ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ پنجاب کے دریاؤں کو جہاز رانی کے لیے استعمال کرنے اور ان پر سٹیمر چلانے کا انگریزوں کا منصوبہ کیا تھا؟ اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟

مہاراجہ رنجیت سنگھ اور انگریزوں کے درمیان دریاؤں کے حوالے سے معاہدے

سنہ 1832 کے معاہدے کے تحت برطانوی راج اور سکھ راج کے درمیان تجارتی روابط بڑھانے کے لیے سندھ اور ستلج کو تجارتی راہداری کے طور پر کھول دیا گیا۔

معاہدے کے مطابق مٹھن کوٹ اور ہریکے میں ٹیکس وصول کرنے کے لیے پوسٹیں قائم کی گئیں۔

تاجروں کو دریا عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنا پڑتا تھا جو کہ انگریزوں یا لاہور دربار کی طرف سے شرائط کے لحاظ سے جاری کیا جاتا تھا۔

سنہ 1834 اور سنہ 1839 میں اس معاہدے میں تبدیلیاں کی گئیں۔

Rivers of Punjab
Getty Images

پنجاب کے تمام دریاؤں پر سٹیمر چلانے کی خواہش

پنجاب پر قبضے کے بعد برطانوی ریاست کی پالیسی کا ایک مقصد دریاؤں کے ذریعے تجارت کو بڑھانا تھا۔

سنہ 1930 میں پنجاب حکومت نے برطانوی حکومت کی طرف سے دریاؤں کے ذریعے تجارت کے لیے دی جانے والی رعایتوں کے بارے میں ایک کتابچہ، ’پنجاب میں دریا کے ذریعے تجارت یا پنجاب حکومت کے میرین ڈیپارٹمنٹ کی سرگرمیوں کا سروے‘ شائع کیا۔

اس کے مطابق ’دریائے سندھ کا راستہ ساتویں صدی کا ہے جو نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ شمالی یورپ اور پورے مغرب تک تجارتی شاہراہ ہے۔‘

انگریز اپنے تجارتی اور فوجی مفادات کے لیے دریاؤں کو نقل و حمل کا ایک مؤثر ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔ پنجاب کے دیگر دریاؤں کی طرح، سندھ بھی شمال سے جنوب تک شہروں کے درمیان ایک شاہراہ کا کام کرتا ہے۔

اسی کتابچے کے مطابق ’پنجاب کے اندرونی شہروں اور سمندر کے درمیان ایک رابطہ قائم ہوا، مقامی کشتیاں پنجاب میں چلتی تھیں جب کہ سٹیمر سندھ میں چلتے تھے، کیونکہ پنجاب کے دریاؤں پر سٹیمر نہیں چل سکتے تھے۔‘

کتابچے کے مطابق ’بمبئی حکومت کی کشتیاں دریائے سندھ کے نچلے حصے تک محدود تھیں لیکن اس کے سٹیمر ملتان تک گئے۔‘

برسات کے موسم میں یہ سٹیمرز دریائے سندھ پر کالا باغ، دریائے جہلم پر جہلم شہر، راوی کے راستے لاہور اور ستلج کے راستے فیروز پور جاتے تھے، لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا، اس لیے یہ تجارت کے لیے موزوں نہیں تھے۔

فلوٹیلا سٹیمرز صرف ملتان تک جاتے تھے، جس سے آگے مقامی کشتیوں کے ذریعے سامان لے جایا جاتا تھا۔

کتاب کے مطابق برطانوی افسروں کی رائے تھی کہ اگر پورا فائدہ اٹھانا ہے تو تمام دریاؤں پر سٹیمر نیوی گیشن متعارف کرائی جائے۔

سٹیمر چلانے میں کیا چیلنجز تھے؟

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت دریاؤں کو استعمال کرنا چاہتی تھی لیکن کامیابی کا انحصار اس بات پر تھا کہ آیا ندی نالوں کو جوڑا جا سکتا ہے یا نہیں۔

یہ ایک مشکل کام تھا، کتاب میں مزید یہ معلومات بھی ہیں کہ پنجاب کے دریا اپنی غیرمعمولی رفتار اور ناقابل پیش گوئی حالات کے لیے جانے جاتے ہیں۔

انگریز افسروں کے علم میں آیا کہ پنجاب کے دریاؤں کے بہاؤ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، بعض جگہ ریت، پتھر اور مٹی کے ڈھیر ہیں۔ ماضی میں وہ کئی بار اپنا راستہ بدل چکے ہیں، لہٰذا ان کے بہاؤ کو بہتر بنانا ضروری تھا۔

اس کے علاوہ دریاؤں کی گہرائی یکساں نہیں تھی۔

waters of punjab
Getty Images

منصوبہ کیوں روکنا پڑا؟

چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انگریزوں نے پنجاب کے دریاؤں کا سروے شروع کیا۔

سنہ 1862 میں پنجاب کے دریاؤں پر آمدورفت کے لیے خصوصی محکمہ بنایا گیا، اس کی کل لاگت چار لاکھ سے زائد تھی۔

اس کے بعد یہ طے پایا کہ سٹیمرز صرف دریائے سندھ پر چلائے جائیں گے، لیکن پنجاب حکومت جوہلام، چناب اور ستلج کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی اور یہ کام نجی کمپنی کو دینا چاہتی تھی۔’

’انڈس فلوٹیلا‘ کمپنی بنانے والی حکومت کے علاوہ دیگر کمپنیاں بھی بنائی گئیں جن میں ’اورینٹل ان لینڈ ٹرانزٹ‘ نامی کمپنی بھی شامل تھی۔

دیگر سٹیمرز کے علاوہ نیپئر، بیاس اور راوی نامی بحری جہاز خاص طور پر پنجاب کے دریاؤں کے لیے لائے گئے۔دریاؤں پر جہاز رانی میں درپیش مشکلات، اضافی اخراجات اور منافع میں کمی کی وجہ سے برطانوی حکومت کا یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

ان تمام کوششوں میں برطانوی حکومت کو 14 لاکھ روپے کا نقصان ہوا اور یہ سکیم مئی 1871 میں روک دی گئی۔

ریلوے کی ترقی اور کنالآئزیشن

ڈاکٹر منندرجیت سنگھ نے پنجاب کے جغرافیہ سے متعلق ایک موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں دفاعی علوم پڑھاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے پاس بحری طاقت تھی اور وہ سمندروں کے بادشاہ تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’برطانوی حکومت کے لیے تجارت سب سے اہم تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس سمت کو تلاش کیا، لیکن اس دوران ریل کی نقل و حمل میں توسیع ہوئی جس سے دریاؤں کا استعمال کم منافع بخش ہو گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک وجہ یہ تھی کہ پنجاب کے دریا اتنے بڑے یا گہرے نہیں تھے کہ بحری جہازوں کو اس راستے میں جانے کی اجازت دی جا سکے۔‘

برطانوی حکومت نے پنجاب کے دریاؤں سے نہریں بنانے پر بھی زور دیا جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US