پاکستان کے کرکٹ کلچر میں کوئی انہونی نہ ہوتی اگر عبدالقادر کی کہانی یہیں ختم ہو جاتی۔ 27 برس کی عمر میں ہی وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ پہ غور کر رہے تھے کہ اچانک ان کی قسمت پلٹ گئی جب عمران خان نے پاکستان کی کپتانی سنبھالی۔

1978 کا دورۂ پاکستان انگلش کرکٹ کے لیے عبدالقادر کا تعارف تھا۔ حیدر آباد میں اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میچ میں چھ وکٹیں لے کر انھوں نے انٹرنیشنل سٹیج پہ اپنی آمد کا اعلان کر دیا۔
سابق انگلش کپتان گراہم گوچ نے ان کے بارے میں لکھا کہ ’انھیں سمجھنا ایک بات ہے، انھیں کھیلنا بالکل ہی کوئی اور معاملہ ہے۔‘
بلے باز ہی نہیں، امپائرز بھی ان کی گیندوں کی چال سمجھنے سے قاصر تھے۔
سابق چیف سلیکٹر اقبال قاسم کے مطابق ’انھیں پتا تھا کہ انگلش امپائرز بھی انھیں پڑھنے میں اتنے ہی ماہر تھے جتنے انگلش بلے باز۔
’اس لیے وہ گیند پھینکنے سے پہلے امپائر کو بتا دیتے تھے کہ اب وہ گوگلی پھینکیں گے یا یا فلپر۔‘
’لگے گی نہیں، پر ہو گی وہ بھی گوگلی ہی‘
نامور انگلش بلے باز گراہم گوچ نے عبدالقادر کو اپنے کیریئر کے سب سے مشکل بولرز میں شمار کیا۔ ’وہ (پہلے) ایک ایسی گوگلی پھینکیں گے جسے آپ سمجھ سکیں۔ پھر وہ ایک ایسی گیند کریں گے جس پہ آپ کو گوگلی کا شبہ تو ہو مگر آپ اسے یقینی طور پہ (گوگلی) کہہ نہ سکیں۔
’اور پھر وہ ایک ایسی گیند پھینکیں گے کہ آپ بالکل ہکا بکا رہ جائیں۔ مگر ہوگی دراصل وہ بھی ایک اور (قسم کی) گوگلی ہی۔‘
انگلش کرکٹ کمنٹیٹر سر ڈیوڈ گاور اپنے عہد کے نمایاں ترین بلے بازوں میں سے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’بہترین (سپنر) جس کا میں نے کبھی سامنا کیا، وہ عبدالقادر تھے جو کئی بار مجھے الجھائے رکھتے تھے۔
’یہ دراصل ان کے لیے بہت فخر کا باعث تھا کہ وہ اپنی دو گوگلیوں میں سے کم از کم ایک اتنی مبہم رکھتے تھے کہ وہ ناقابلِ شناخت رہتی تھی۔‘
’پاکستان میں میرے سکورز کو دیکھیں تو یا میں واقعی اچھا کھیل رہا تھا۔ یا پھر میری قسمت بہت ہی عمدہ تھی کہ بہت سی گیندوں پہ خطا کھانے اور چُوکنے میں کام آئی۔‘
27 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ پر غور، پھر عمران خان کپتان بنے
گو کہ حیدر آباد ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی کے ساتھ ساتھ 1978 کے سیزن میں وہ سب سے کامیاب بولر تھے مگر اگلے ہی برس پاکستان کا دورۂ انگلینڈ عبدالقادر کے کیریئر پہ بھاری ثابت ہوا۔ جب انجریز سے لڑتے اور انگلینڈ کی سیمنگ کنڈیشنز سے بالکل نامانوس عبدالقادر وکٹوں کی کھوج میں مایوسیاں دیکھتے رہے۔
حسبِ توقع وہ ٹیم سے ڈراپ ہوئے اور اگلے چار برس ٹیم سے باہر رہے۔
پاکستان کے کرکٹ کلچر میں کوئی انہونی نہ ہوتی اگر عبد القادر کی کہانی یہیں ختم ہو جاتی۔
27 برس کی عمر میں ہی وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ پہ غور کر رہے تھے کہ اچانک ان کی قسمت پلٹ گئی جب عمران خان نے پاکستان کی کپتانی سنبھالی۔
27 برس کی عمر میں ہی وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ پہ غور کر رہے تھے کہ اچانک ان کی قسمت پلٹ گئی جب عمران خان نے پاکستان کی کپتانی سنبھالی’گوٹی‘ والا جادوگر اور یادگار لارڈز ٹیسٹ
عمران خان نے 1982 کے دورۂ انگلینڈ کے لیے عبدالقادر کی سلیکشن پہ اصرار کیا۔ جاوید میانداد ہی کی طرح سلیکشن کمیٹی بھی اقبال قاسم کے حق میں تھی مگر عمران نے جب دورہ چھوڑنے کی دھمکی دی تو ہی عبدالقادر ٹیم کا حصہ بنے۔
اپنے روایتی انداز میں جہاں عمران خان نے ’سپن جادوگر‘ کی میڈیا ہائپ اٹھائی وہیں انھوں نے عبدالقادر کو ’گوٹی‘ سٹائل کی داڑھی رکھنے کا بھی مشورہ دیا۔
عبدالقادر نے اس مشورے پہ عمل کیا۔
دوسرے ٹیسٹ میچ تک عبدالقادر کا یہ حلیہ اور ’سپن جادوگر‘ کی ہائپ انگلش میڈیا ہی نہیں، انگلش ٹیم پہ بھی سوار ہو چکی تھی۔ اور پھر لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انھوں نے اوپر تلے ایان بوتھم اور ڈیرک پرنگل کی وکٹیں لے کر پاکستان کے لیے ایک یادگار فتح کی بنیاد رکھی۔
عمران خان کے بعد وہ دوسرے پاکستانی بولر تھے جنھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 200 وکٹوں کا سنگِ میل عبور کیا۔
عبدالقادر کا شمار دنیائے کرکٹ کے بہترین سپنرز میں ہوتا تھاشین وارن کو گوگلی کس نے سکھائی؟
اگرچہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ عبدالقادر شین وارن کے استاد تھے اور انھیں گوگلی عبدالقادر نے ہی سکھائی تھی۔ تاہم وہ شین وارن کے آئیڈیل ضرور تھے مگر دونوں کی پہلی ملاقات 1994 میں ہوئی جب شین وارن ابتدائی شہرت پا چکے تھے۔ ( لہٰذا اس دعوے کی حتمی درستی قرینِ قیاس نہیں۔)
1994 میں جب آسٹریلوی ٹیم دورۂ پاکستان پہ آئی تو شین وارن عبدالقادر سے ملنے کو بہت مشتاق تھے۔ عثمان قادر کے مطابق’اس (وارن) نے کہا اگر آپ سے ملنا نہ ہوتا تو میں پاکستان کے دورے پہ ہی نہ آتا، میں تو صرف آپ سے ملنے آیا ہوں۔‘
شین وارن کا بچپن عبدالقادر کی بولنگ دیکھتے اور ان کی لیگ سپن کی نقالی میں گزرا تھا۔ کرکٹ کمنٹیٹر قمر احمد نے شین وارن کی درخواست پہ اس ملاقات کا اہتمام کیا اور دونوں لیگ سپنرز ہی نہیں، آسٹریلوی پریس کے لیے بھی یہ ملاقات یادگار رہی۔
’وہاں گیندیں تو تھی نہیں، ایک (فروٹ) باسکٹ میں سیب، سنگترے پڑے تھے۔ ان سے ہم نے ایک دوسرے کو مختلف ورائٹی پریکٹس کر کے دکھائی، ٹاپ سپن، گوگلی، فلپر، لیگ سپن۔‘
عبدالقادر جنوبی افریقہ کے سپنر عمران قادر کو بولنگ کے گُر سکھا رہے ہیںعمران خان کے ساتھ چیلنج اور ون ڈے ٹیم میں شمولیت
11 سال کی عمر تک عبدالقادر نے کوئی کرکٹ نہیں کھیلی۔ ان کے والد دھرمپورہ کی ایک مسجد میں امام تھے اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ ایسے میں عبدالقادر سکول سے واپس آ کر ایک ’بُک شاپ‘ پہ پارٹ ٹائم کام کرتے۔
جب انھوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی تو ان کا شوق فاسٹ بولنگ اور بیٹنگ کی طرف تھا۔
مگر ایک روز نیٹ سیشنز میں سلو بولنگ کرتے ہوئے اچانک عبدالقادر نے گیند پہ حیران کن سپن دیکھی تو خود حیران رہ گئے۔ یہ دریافت ان کے کرکٹ کیریئر کا صحیح معنوں میں آغاز ثابت ہوئی کہ پھر دھرمپورہ جمخانہ سے ہوتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور کی کرکٹ ٹیم تک پہنچتے انہیں دیر نہ لگی۔
ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے عبدالقادر نے بتایا کہ جب انھوں نے عمران خان سے شکوہ کیا کہ انھیں ون ڈے میں کیوں نہیں کھلایا جاتا تو عمران نے کہا کہ ان کی بولنگ ون ڈے کے لیے موثر نہیں تھی۔ جس پہ عبدالقادر نے چیلنج کیا کہ وہ انھیں چھکا مار کر دکھائیں۔
’باغِ جناح میں عمران اور میں پریکٹس کیا کرتے تھے، گراؤنڈ سے وہ (دور) پیچھے پارکنگ تھی۔ عمران نے کہا میں تجھے وہاں چھکا ماروں گا، میں نے کہا مارو۔‘
’میں نے پہلی ہی گیند کی، عمران کلین بولڈ ہو گیا۔ میں نے کہا اب بولو؟ کہتا وہ بس ابھی میرا موڈ نہیں تھا، کل دیکھوں گا تجھے۔‘
جب اگلے روز پھر یونہی انھوں نے عمران خان کو بولڈ کر دیا تو عمران نے انھیں چیف سلیکٹر سے ملنے کا کہا۔
عبدالقادر نہ صرف پاکستان ون ڈے ٹیم کا حصہ بن گئے بلکہ عمران خان نے انھیں بطور اٹیکنگ آپشن استعمال کر کے ون ڈے بولنگ کو بھی ایک نئی طرح دی۔
سیلف کوچنگ سے ’کنگ آف سپن‘ تک
برطانوی مصنف پیٹر او بورن کے مطابق بچپن میں عبدالقادر کے ہاں ایسی خوشحالی نہ تھی کہ کرکٹ کے شوق کے لیے انھیں گھر سے کوئی مالی مدد حاصل ہو پاتی۔ ایسے میں ان کی ساری مشق خود ہی خود کو سکھانے پہ رہی۔
’سونے کے لیے بستر پہ جاتے وقت میں ایک کرکٹ بال ساتھ رکھتا تھا اور نیند میں جانے سے پہلے میں اسے الگ الگ طرح سے ’گرِپ‘ کر کے تصور کرتا تھا کہ اگر اسے یوں پھینکا جائے تو کس طرف ٹرن ہو گی۔‘
برسوں بعد جب وہی عبدالقادر دنیائے کرکٹ پہ اپنی دھاک جما چکے تھے تو بزنس کارڈ پہ اپنا تعارف ان الفاظ میں لکھتے تھے کہ ’عبدالقادر۔۔۔ کنگ آف سپن۔‘
پاکستانی سپنرز کی تاریخ میں نامکمانے والے مشتاق محمد اور انتخاب عالم اولڈ سکول کرکٹ کے پیرو تھے جس کی فلاسفی میں جارح کا کردار ہمیشہ فاسٹ بولرز کا تھا اور لیگ سپنرز کا کردار کنٹرول فراہم کرنا تھا۔
لیکن عبدالقادر نے اس روایت سے بغاوت کی۔ انھوں نے لیگ سپن کو بطور اٹیکنگ ہتھیار اپنایا۔ ان کا ایکشن اپنی نوعیت میں ایک الگ سٹائل رکھتا تھا، ان کی انگلیوں کی فطری ساخت گیند پہ ان کی گرفت مضبوط رکھنے میں موثر تھی۔
انڈین مصنف راہول بھٹا چاریہ کو ایک انٹرویو میں عبدالقادر نے بتایا کہ ان کا بولنگ ایکشن قدرتی ہرگز نہیں تھا، اسے انھوں نے سوچ سمجھ کر بنایا تھا۔ ’بلے باز نہ تو (میری) گیند سے مات کھاتے تھے، نہ ہی بولر سے۔ وہ تو (میرے) اس پرسونا (شخصیت) کے ہاتھوں مار کھاتے تھے۔‘
45 ڈگری کے ٹیڑھے زاویے سے کریز کی طرف قدم بھرنے کے بعد جب امپائر کے قریب پہنچ کر عبدالقادر ایک اونچا جمپ لیتے اور ’ہائی آرم ایکشن‘ سے شارپ گوگلی پھینکتے تو بلے باز دم بخود رہ جایا کرتے۔

لیگ سپن کا کوئی بھی تذکرہ لیجنڈری رچی بینو کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔
بطور کمنٹیٹر دہائیوں شائقین کو محظوظ کرنے والے 'وائس آف کرکٹ' رچی بینو جب عبدالقادر سے ملنے آئے تو حیرت ان کی بھی منتظر تھی۔
لیگ سپنرز عموماً گیند سپن کرنے کے لیے دو ہی انگلیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر عبدالقادر نے جب رچی بینو کو بتایا کہ وہ اپنی گوگلی کو شارپ سپن دینے کے لیے تین انگلیاں استعمال کرتے تھے تو ڈیڑھ دہائی پہ محیط، اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 19 ہزار سے زیادہ گیندیں پھینکنے والے رچی بینو کے لیے بھی یہ ایک نئی بات تھی۔
عبدالقادر ہمیشہ اس ملاقات کا ذکر بہت فخر سے کرتے تھے، ’یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی کہ انہوں نے بہت شوق سے مجھے سنا اور میں بھی ان کے علم میں کچھ اضافہ کر پایا۔‘
ورلڈ کپ 1987 کے گروپ میچ میں جب پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا مقابلہ ہوا تو ویوین رچرڈز کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کو 217 رنز کا ہدف دیا۔ پاکستان پہلے ہی اس میچ کے لیے فیورٹ تھا۔
مگر سکور بورڈ ابھی 110 پہ ہی تھا کہ آدھی پاکستانی ٹیم واپس ڈریسنگ روم پہنچ چکی تھی۔
میچ کے آخری اوور میں عبدالقادر کریز پر تھے اور پاکستان کو 14 رنز درکار تھے۔ ایسے میں لاہور کے کراؤڈ پہ مایوسی طاری تھی کہ بھلا کوئی ’ٹیل اینڈر‘ کورٹنی والش کے سامنے کیا بیچے گا۔
لیکن وہاں عبدالقادر کے یادگار چھکے کی بدولت میچ پاکستان کی جیت پہ تمام ہوا۔ وسیم اکرم کے مطابق پاکستانی ٹیم خوشی سے بے حال ہو رہی تھی جبکہ ویوین رچرڈز بے یقینی میں پچ پہ ہی لیٹ گئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
بعد ازاں جب ورلڈ کپ کے گروپ میچز میں بہترین پلئیر کا ایوارڈ عبدالقادر کو ملا تو انہوں نے انعام میں ملنے والی گاڑی شوکت خانم ہسپتال کیفنڈ ریزنگ میں عمران خان کو بطور تحفہ دے دی۔

’ڈینس للی کی تھپکی اور میلبرن میں پانچ وکٹیں‘
آسٹریلوی سرزمین کبھی بھی ایشیائی سپنرز کے لیے خوشگوار نہیں رہی۔ دورۂ آسٹریلیا عبدالقادر کے لیے بھی مایوس کن جا رہا تھا۔ بہت زیادہ رنز دے کر بھی وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پا رہے تھے۔
کرک انفو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عبدالقادر نے بتایا کہ میلبرن ٹیسٹ سے پہلے وہ بہت پریشان تھے اور اپنی بولنگ کے حوالے سے فرسٹریشن کا شکار تھے۔
’میں اپنے خیالوں میں گم کھڑا تھا کہ کسی نے پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دیے۔ مجھے لگا یہ عِمی (عمران خان) ہو گا کیونکہ کوئی اور پاکستانی کھلاڑی یہ جرات ہی نہیں کر سکتا تھا۔‘
مگر پلٹنے پہ انھیں معلوم ہوا کہ یہ عمران خان نہیں بلکہ ڈینس للی تھے۔ انھوں نے عبدالقادر سے کہا ’عبدل! میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم پریشان ہو، جب کوئی عظیم بولر پرفارم نہیں کرتا تو وہ پریشان ہوتا ہے مگر میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم ایک عظیم بولر ہو اور ہم تمہیں پسند کرتے ہیں۔‘
عبدالقادر کے لیے یہ تھپکی اس قدر حوصلہ افزا تھی کہ اگلے ہی ٹیسٹ میچ میں میلبرن کا تجربہ ان کے لیے خوشگوار بن گیا اور انھوں نے پانچ وکٹیں حاصل کی۔
اپنے زمانۂ طالب علمی میں جب مشتاق احمد نے ٹی وی پہ عبدالقادر کی بولنگ دیکھی تو وہ لاشعوری طور پہ اس سے یوں متاثر ہوئے کہ اپنا بولنگ ایکشن ہی ان کی نقالی پہ ترتیب دیا۔
نوے کی دہائی کے آغاز تک عبدالقادر کی انگلیوں کا جادو ماند پڑنے لگا تھا اور پاکستانی سلیکٹرز مستقبل کو دیکھتے ہوئے مشتاق احمد پہ داؤ کھیلنا چاہ رہے تھے۔
مشتاق احمد عبدالقادر کے باقاعدہ شاگرد تھے اور وہی اپنے استاد کے کیریئر کلائمیکس پہ ان کا متبادل بن کر ابھرے۔
مگر جتنے برس بھی مشتاق احمد پاکستان کے لیے کھیلے، شائقین کی ایک جنریشن کا یہ جملہ بہرحال ہمیشہ ہی سنائی دیا کہ ’اچھا تو ہے پر قادر جیسا نہیں ہے۔‘