’شیرِ صحرا‘: لیبیا میں استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والے عمر مختار کون تھے؟

اٹلی نے جب سنہ 1911 میں لیبیا پر قبضہ کیا تو جزیرہ نما برقہ یا سائرینیسیا میں صوفی سلسلے کے حامیوں یعنی سنوسیوں نے طویل مزاحمت کی، جس کی وجہ سے فاشسٹ حکومت مکمل کنٹرول حاصل نہ کر سکی۔

اٹلی کے قبضے کے خلاف لیبیائی مزاحمت کے قائد شیخ عمر مختار کو سولی پر چڑھائے جانے کی 95ویں برسی پر لیبیا میں’یومِ شہدا‘ منایا جا رہا ہے۔

16 ستمبر سنہ 1931 کو اٹلی کی قابض حکومت نے 73 سالہ عمر المختار کو ایک فرضی مقدمے میں سماعت کے بعد پھانسی دے دی۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹنیکا کے مطابق اٹلی نے جب سنہ 1911 میں لیبیا پر قبضہ کیا تو جزیرہ نما برقہ یا سائرینیسیا میں صوفی سلسلے کے حامیوں یعنی سنوسیوں نے طویل مزاحمت کی، جس کی وجہ سے فاشسٹ حکومت مکمل کنٹرول حاصل نہ کر سکی۔

یہ مزاحمت سنہ 1931 تک اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ انھوں نے سنوسی مزاحمت کے درخشاں رہنما عمر المختار کو گرفتار کر کے قتل نہ کر دیا۔

بی بی سی کے اینڈریو نارتھ لکھتے ہیں کہ جب سنہ 1911 میں اٹلی نے طرابلس پر چڑھائی کی تو انھیں امید تھی کہ لیبیائی عوام انھیں عثمانی حکومت سے نجات دلانے والا سمجھیں گے لیکن بن غازی کے گرد و نواح میں عمر المختار کی قیادت میں بیس سال تک سخت مزاحمت جاری رہی۔

فاشسٹ اٹلی کے آمر، بینیتو موسولینی نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے اجتماعی سزاؤں کا سہارا لیا اور ان علاقوں کے ایک لاکھ افراد کو، جو مزاحمت کے گڑھ سمجھے جاتے تھے، جبری طور پر حراستی کیمپوں میں منتقل کیا، جہاں ہزاروں لوگ ہلاک ہو گئے۔

سنہ 1931 میں عمر المختار کو گرفتار کر کے ان کے ہزاروں ساتھیوں کے سامنے پھانسی دی گئی۔

عمر مختار لیبیا میں استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر ابھرے
Getty Images
عمر مختار لیبیا میں استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر ابھرے

عمر المختار کون تھے؟

عمر بن المختار سنہ 1862 میں مشرقی لیبیا کے علاقے برَقه میں زاویہ جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے بچپن میں ہی ان کے والد وفات پا گئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم قرآن مجید کی حاصل کی۔

بعد ازاں، وہ سنوسی تحریک کے مرکز جغبوب چلے گئے، جھاں انھوں نے فقہ، حدیث، تفسیر اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے مہدی سنوسی سے خصوصاً تعلیم حاصل کی۔

سنہ 1897 میں مہدی سنوسی نے انھیں الجبل الاخضر کے علاقے میں واقع زاویہ القصور کا شیخ مقرر کیا، اور انھیں ’سیدی‘ کا لقب دیا، جو سنوسی تحریک کے ممتاز شیوخ کو ہی ملتا تھا۔

عمر مختار نے کچھ عرصہ سوڈان میں بھی گزارا، جہاں سنوسی تحریک کا اثر موجود تھا۔ وہ وہاں مہدی سنوسی کے نائب کے طور پر قیام پذیر رہے، اور ’عين كلك‘ نامی زاویہ کے شیخ مقرر کیے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ انھیں ’لائن آف ڈیزرٹ‘ یعنی 'شیرِ صحرا' کا لقب اس وقت ملا جب وہ سوڈان کے سفر میں ایک شیر سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے قافلے کو بچانے میں کامیاب رہے تھے۔

سنہ 1902 میں محمد مہدی سنوسی کی وفات کے بعد عمر المختار دوبارہ برقه واپس آ گئے اور زاویہ القصور کے شیخ مقرر ہوئے۔ اس وقت لیبیا پر عثمانی سلطنت کا قبضہ تھا اور انھوں نے ان کے نظم و نسق کو سراہا۔

امریکی اداکار نے اینتھونی کوئن نے 'دی لائن آف ڈیزرٹ' فلم میں عمر مختار کا کردار ادا کیا ہے
Getty Images
امریکی اداکار نے اینتھونی کوئن نے 1979 میں آنے والی فلم 'دی لائن آف ڈیزرٹ' میں عمر مختار کا کردار ادا کیا ہے

’قابض قوتوں کے خلاف جہاد‘

اٹلی کے خلاف مزاحمت سے قبل عمر مختار نے لیبیا اور مصر کی سرحد پر برطانوی افواج سے بھی لڑائیاں کیں۔ جیسا کہ 1908 کی سَلوم کی جنگ میں دیکھا گيا۔ انھوں نے جنوبی سوڈان میں فرانسیسی افواج کے خلاف اور 1900 میں جب فرانس نے چاڈ پر قبضہ کیا تو وہاں بھی مزاحمت کی۔

سنہ 2011 میں اٹلی نے عثمانی سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑی اور لیبیا پر قبضہ کر لیا۔ سنہ 1912 میں لیبیا کو باضابطہ اٹلی کی کالونی قرار دیا گیا۔ اس وقت عمر مختار کی عمر 53 برس تھی اور وہ بیس برس تک اٹلی کے خلاف مسلح جدوجہد کی قیادت کرتے رہے جس میں اطالوی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ان معرکوں میں 1913 کی دو روزہ درنہ کی جنگ شامل تھی جس میں 70 اطالوی فوجی مارے گئے اور 400 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ بو شمال کی لڑائی بھی تھی۔ ان کی قیادت میں ام شخنب، شلظیمہ اور زوَيتينه کی لڑائیاں بھی ہوئیں۔ ان لڑائیوں کے دوران وہ خود محاذوں پر موجود تھے۔

سنہ 1922 میں جب اٹلی میں فاشسٹ اقتدار میں آئے تو لیبیا میں فوجی کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ اطالویوں نے جغبوب پر قبضہ کر کے مزاحمت کی رسد روکنا چاہی مگر تحریک مزید شدت اختیار کر گئی، جس پر موسولینی نے جنرل بادولیو کو لیبیا کا فوجی گورنر مقرر کیا۔

بادولیو نے عمر مختار سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی جس پر دو ماہ کی جنگ بندی ہوئی۔

’عمر المختار، شہید اسلام اور شیرِ صحرا‘ نامی کتاب کے مصنف محمد محمود اسماعیل کا کہنا ہے کہ عمر المختار نے اس وقت لیبیائی عوام کے نام ایک پیغام میں کہا کہ انھوں نے یہ صلح صرف شہزادہ محمد ادریس سنوسی کی واپسی، اطالوی افواج کی جغبوب سے واپسی اور تمام سیاسی قیدیوں کو عام معافی دینے کی شرائط پر قبول کی ہے۔

تاہم اطالوی حکومت نے شرائط پوری نہ کیں اور جنگ بندی میں مزید توسیع کی جاتی رہی۔

جب عمر مختار نے دیکھا کہ اطالوی وقت حاصل کر رہے ہیں، تو انھوں نے دوبارہ مزاحمت تیز کر دی۔ اس پر موسولینی نے جنرل گراتسیانی کو بادولیو کی جگہ مقرر کیا اور اطالوی 1931 میں الکفرہ پر بھی قابض ہو گئے۔

’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ہم یا تو فتح یاب ہوں گے یا شہید‘

11 ستمبر سنہ 1931 کے ایک معرکے میں، جس میں عمر مختار کا گھوڑا مارا گیا اور ان کی عینک ٹوٹ گئی، اطالوی افواج نے عمر المختار کو گرفتار کر لیا۔

14 ستمبر کو جنرل گراتسیانی بن غازی پہنچے اور 15 ستمبر کو ایک ہنگامی عدالت قائم کی جس میں عمر مختار پر مقدمہ چلایا گیا۔ اسی دن شام پانچ بجے انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔

دوسرے دن یعنی 16 تاریخ کی صبح کو انھیں سولی پر چڑھا دیا گيا۔

عمر المختار کا ایک مشہور قول اکثر نقل کیا جاتا ہے کہ ’ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے، ہم یا تو فتح یاب ہوں گے یا شہید‘۔ یہ بات انھوں نے اس وقت کہی تھی جب قابض اطالوی رہنماؤں نے ان سے مزاحمت ختم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تھا۔

بہر حال دوسری جنگ عظیم کے دوران سنہ 1943 میں جب اٹلی کو شکست ہو رہی تھی اسی دوران لیبیا سے اطالوی قبضہ ختم ہوا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US