صوبائی مینجمنٹ سروس ایسوسی ایشن کی جانب سے اعتراض کے بعد ڈائریکٹر اینٹی کرپشن خیبر پختونخوا نے اپنی تعیناتی کے حوالے سے چیف سیکریٹری کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے اپنی تعیناتی کو قانون کے مطابق قرار دیا ہے جبکہ اعتراضات اور بیانات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تقرری مکمل طور پر قانونی اور قواعد کے مطابق ہے۔
چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کے نام ایک تفصیلی وضاحتی خط میں انہوں نے کہا کہ بعض افسران اور ایسوسی ایشنز کی جانب سے ان کے اصل محکمے میں واپسی کا مطالبہ بلا جواز ہے، جس کا مقصد احتسابی عمل کو متاثر کرنا ہے۔
ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے کہا کہ وہ 2016 سے بطور پراسیکیوٹر خدمات انجام دے رہے ہیں اور سات سال سے زائد عرصہ اینٹی کرپشن میں گزار چکے ہیں، اس دوران سینکڑوں کیسز کی قانونی رہنمائی اور کامیاب پیروی کی۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم سے متعلق ان کے تجربے کا کوئی ثانی نہیں اس لیے ان کی تعیناتی بالکل درست ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے طور پر پراسیکیوٹر کی تعیناتی مکمل طور پر آئین و قانون کے مطابق ہے۔
انہوں نے مخالفین کے اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ سزاؤں کی شرح (کنویکشن ریٹ) میں کمی کی وجہ قانون اور ساختی خامیاں ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے نئے اینٹی کرپشن ایکٹ کا ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے اور ادارے کی تنظیم نو کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں نقد اور جائیداد کی نمایاں وصولیاں ہوئیں اور کئی سرکاری اراضی قبضہ مافیا سے واپس دلائی گئیں۔
صدیق انجم نے کہا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے کسی بھی محکمے کے خلاف کارروائی میں امتیاز نہیں برتا، پولیس سمیت مختلف محکموں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کارروائیاں جاری ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض افسران پر کارروائیوں کے نتیجے میں ہی ان کے خلاف خطوط اور بیانات کی مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ احتسابی عمل کو سبوتاژ کیا جاسکے۔
انہوں نے چیف سیکریٹری سے اپیل کی ہے کہ ان کی تعیناتی کا جائزہ کارکردگی کی بنیاد پر کیا جائے، جس میں مقدمات کی تعداد، بازیابیاں اور محکمہ جاتی کارروائیاں شامل ہیں۔ اگر تقرری میں کوئی بے ضابطگی ثابت ہو تو میں اس کے فوری خاتمے کے لیے تیار ہوں، لیکن کرپشن پر آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔