بہت سارے لوگ یونیورسٹی میں ان توقعات کے ساتھ آتے ہیں: اپنے دوستوں کے ساتھ رہیں گے، راتوں کو باہر جائیں گے، اپنے پسندیدہ مضمون کا مطالعہ کریں گے اور کسی نئے کھیل یا شوق میں دلچسپی لیں گے۔
بی بی سی نے متعدد طلبا سے بات کر کے ان کے تجربات جاننے کی کوشش کی ہےرابرٹ میڈہرسٹ نے اپنے پورے ہفتے کا زیادہ تر حصہ اپنی یونیورسٹی کے طلبہ کی سوشل میڈیا پوسٹس دیکھتے ہوئے گزارا، جو اُن کے اپنے دوستوں کے ساتھ گزارے گئے شب و روز سے متعلق تھیں۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ ’میں بستر پر لیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا، وہ میرے لیے اکیلے پن کے احساس سے بھرپور بدترین ہفتہ تھا۔‘
رابرٹ کے ساتھ اُن کے فلیٹ میں رہنے والے افرادبھی باہر جانا زیادہ پسند نہیں کرتے۔ اُنھوں نے اپنی یونیورسٹیز میں مختلف گروپس کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کی، لیکن اُنھیں اپنے جیسے لوگ نہیں ملے۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنا اعتماد کھونا شروع کر دیا، میں نے محسوس کیا کہ لوگ مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتے، یا وہ مجھے پسند نہیں کرتے۔‘
شروع میں رابرٹ کا یونیورسٹی جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور سکستھ فارم یعنی سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد اُنھیں نوکری کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ لیکن پھر اُنھوں نے اپنے دوستوں کو انسٹا گرام اور سنیپ چیٹ پر دیکھا جو یونیورسٹیز میں داخلہ لے چکے تھے۔
کچھ کھو دینے کے ڈر سے رابرٹ نے بھی نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں بزنس کے کورس میں داخلہ لے لیا۔ اُنھوں نے اس یونیورسٹی میں اس لیے داخلہ لیا کیونکہ یہ بھرپور سٹوڈنٹ لائف کے لیے مشہور تھی۔
لیکن محض چند روز بعد ہی رابرٹ یونیورسٹی چھوڑنے پر غور کر رہے تھے۔
اپنے پہلے سال کے ابتدائی مہینوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’میں سوشل میڈیا دیکھتا تو لگتا تھا کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل رہے ہیں، لیکن میں تنہا ہوں۔ یہ وہ احساس تھا جس سے میں بہت جلد میں اُکتا گیا۔‘
ایک ٹاک ٹاک ویڈیو میں رابرٹ نے یونیورسٹی کے پہلے ہفتے کے دوران ہونے والی ویلکم پارٹی میں خود کو تنہا محسوس کیا۔ اُن کی پوسٹ کے نیچے آنے والے کمنٹس میں بھی کئی افراد نے اسی نوعیت کے تجربات کا بتایا۔
طلبہ کی توقعات
ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا طالب علمی کی زندگی کے خیال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ یونیورسٹی میں ان توقعات کے ساتھ آتے ہیں: اپنے دوستوں کے ساتھ رہیں گے، راتوں کو باہر جائیں گے، اپنے پسندیدہ مضمون کا مطالعہ کریں گے اور کسی نئے کھیل یا شوق میں دلچسپی لیں گے۔
لیکن کچھ لوگوں ان تجربات سے لطف اندوز میں ناکام رہتے ہیں۔
بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں کونسلنگ سروسز سے منسلک لارین ہاورڈ کہتی ہیں کہ کچھ طلبہ آنکھوں پر ’گلابی رنگ کے شیشوں‘ کے ساتھ یونیورسٹی آتے ہیں۔
سوانسی یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر جوآن پارفٹ کہتی ہیں کہ اپنے پہلے ہفتے میں نئے سٹوڈنٹس کے لیے ایک سروے کروایا گیا تھا اور اس میں طلبہ کو درپیش سب سے بڑی مشکل یہ تھی: وہ کیسے خود کو اس ماحول میں ڈھال سکتے ہیں۔
مارکیٹ ریسرچ ایجنسی سیبیل کے ایک سروے میں 17 فیصد طلبہ نے کہا کہ اُن کا یونیورسٹی میں کوئی دوست نہیں ہے۔ 37 فیصد نے کہا کہ وہ دوست بنانے کے بارے میں روزانہ سوچتے ہیں۔
پارفٹ کہتی ہیں کہ طلبہ کو یہ کافی مشکل لگتا ہے کیونکہ اگر آپ نے سکول یا سکستھ فارمچھوڑ دی ہے تو پھر آپ کو اپنے پرانے دوست چھوڑنا پڑ سکتے ہیں اور ایک نیا آغاز کرنا پڑتا ہے جو بہت سے لوگوں کے لیے واقعی پریشان کن ہے۔
بے چینی کا احساس
علیشا میاں کی ٹک ٹاک فیڈ لڑکیوں کی سٹوڈنٹ ہاؤسز میں ایک ساتھ رہنے کے دوران مزے کرنے کی ویڈیوز سے بھری ہوئی تھی - فلمی راتیں، پکنک منانا اور ایک ساتھ گھومنے جانا۔
لیکن جب علیشا ستمبر 2024 میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن سے شیفیلڈ گئیں تو انھیں پہلا ہفتہ بوجھلگنے لگا کیونکہ اس میں شراب کا بہت استعمال کیا گیا تھا۔
علیشا شراب نہیں پیتیں اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی کلب نہیں گئی تھیں۔
وہ کہتی ہیں: ’میں نے اپنے کمرے میں فریشرز کا ہفتہ گزارا۔ میں نے تھوڑا سا اجنبی محسوس کیا۔‘
یونیورسٹی میں علیشا کے ابتدائی چند مہینوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں سے ملتے وقت وہ بے چینی محسوس کرتی تھیں۔
رابرٹ کی طرح علیشا نے بھی کورسز چھوڑنے یا تبدیل کرنے پر غور کیا، لیکن ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اُنھیں لگا کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے آئی ہیں، دوست بنانے کے لیے نہیں۔
ہائر ایجوکیشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ اور چیریٹی ایڈانس ایچ ای کی طرف سے 10 ہزار سے زائد انڈر گریجویٹ طلبہ کے سروے میں 29 فیصد نے کہا کہ اُنھوں نے اپنے آپ کو الگ تھلگ محسوس کیا اور تعلیم چھوڑنے پر غور کیا۔
سب سے عام وجہ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت تھی اور اس کے بعد مالی خدشات تھے۔
بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے منسلک مسز ہاورڈ کہتی ہیں کہخاندان سے دُوری، دوست بنانے کی کوشش اور پھر اپنے بجٹ کو دیکھنا یہ وہ معاملات ہیں جو یونیورسٹیز کا رُخ کرنے والوں کے لیے بڑا چیلنج ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول اس معاملے میں بے چینی عام اور معمول کی بات ہے۔
’لگتا تھا یونیورسٹی ایک جادوئی اور پرکشش جگہ ہو گی‘
اگرچہ کرسٹینا عالیہ ڈیوس نے نیو کیسل یونیورسٹی میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے وقت کا لطف اٹھایا، لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ اُتنا پرجوش نہیں تھا جس کا اُن کے گھر والوں نے بتایا تھا۔
اُن کے بقول ’لگتا تھا کہ یونیورسٹی ایک بہت ہی جادوئی اور پرکشش جگہ ہو گی، جہاں دوست ایک دوسرے کے ساتھ ڈانس کر رہے ہوں گے اور گانے گائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں سکستھ فارم میں تھی تو خواب دیکھتی تھی کہمیں اپنے فلیٹ میٹس کے ساتھ ڈنرز پر جاؤں گی اور ہالوین پارٹیز کی میزبانی کروں گی۔‘
لیکن کرستینا لگ بھگ ایک برس تک اپنے فلیٹ میٹس کے ساتھ دوستی نہیں کر سکیں تھیں اور کبھی کبھار بالکل تنہا محسوس کرتی تھیں۔
وقت کے ساتھ رابرٹ، علیشا اور کرسٹینا تینوں کو اپنے ہم خیال دوست مل ہی گئے۔
علیشا نے اپنے کورس اور ٹک ٹاک کے ذریعے دوست بنائے، جبکہ کرسٹینا یونیورسٹی میں اپنے پہلے سال کے بعد دوستوں کے ساتھ گھل مل جانے کے قابل ہوئیں۔
’میرا مشورہ؟ اپنا کمرہ چھوڑو!‘
رابرٹ اب 24 سال کے ہیں اور اپنے یونیورسٹی کے آخری سال میں ہیں۔ وہ اب اپنی یونیورسٹی کی ڈرامہ سوسائٹی میں شامل ہو رہے ہیں اور ایک بار میں پارٹ ٹائم جاب کررہے، جس سے اُنھیں نئے دوست بنانے میں مدد ملی۔
اُنھوں نے یونیورسٹی کے دوسرے اور تیسرے سال کے دوران رضاکارانہ خدمات بھی سرانجام دیں جس کے ذریعے اُنھوں نے نئے طلبہ کو اس نئے ماحول میں ڈھلنے میں مدد کی۔
یونیورسٹی کے پہلے سال میں سوشل لائف بنانے میں جدوجہد کرنے والوں کو رابرٹ نے مشورہ دیا کہ وہ صرف اپنے ’کمرے سے باہر نکلیں‘ کلب اور سوسائٹی کے پروگراموں میں حصہ لیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو اپنے مزاج کے مطابق دوست نہ بھی ملیں تو بھی کوشش ترک نہ کریں اور آگے بڑھتے رہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چند ہفتوں کی مستقل مزاج کے بعد لوگ آپ کو پہچاننے لگیں گے اور پھر وہ آپ کے دوست بن جائیں گے۔