انڈیا کے وزیر اعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے پچھلے کچھ ہفتوں میں کئی بار یہ کہا ہے کہ انڈیا کے سرحدی علاقوں میں آبادی کے تناسب میں مذہبی بنیادوں پر تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ ’2011 کی مردم شماری میں آسام کے اندر مسلم برادری کی آبادی بڑھنے کی دس برس کی شرح 29 اعشاریہ چھ فیصد رہی ہے‘انڈیا کے وزیر اعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے پچھلے کچھ ہفتوں میں کئی بار یہ کہا ہے کہ انڈیا کے سرحدی علاقوں میں آبادی کے تناسب میں مذہبی بنیادوں پر تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔
وہ اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے آنے کے سبب ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، جو ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ یہ بات انھوں نے خاص طور پر بنگال اور آسام سے آنے والے تارکین وطن کے بارے میں کہی ہے۔
ملک کے دونوں اعلی رہنماؤں کے یہ بیانات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب انڈیا کے الیکشن کمیشن نے بنگال سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں ووٹروں کی فہرست از سر نو بنانے کا کام شروع کیا ہے، جسے ’سپیشل انٹینسیو ریویژن‘ یا ایس آئی آر کا نام دیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے حالیہ دنوں میں آبادی کی شکل میں تبدیلی کے سوال پر کہا کہ ’2011 کی مردم شماری میں آسام کے اندر مسلم برادری کی آبادی بڑھنے کی دس برس کی شرح 29 اعشاریہ چھ فیصد رہی ہے۔ غیر قانونی تارکین کے آئے بغیر یہ اصافہ ممکن ہی نہیں ہے اور مغربی بنگال کے کئی ضلعوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح 40 فیصد سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔‘
کیا واقعی بنگال اور آسام کے سرحدی علاقوں میں غیر قانونی نقل مکانی کے سبب آبادی کا تناسب بدل رہا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے آسام اور بنگال کے سرحدی علاقوں کا سفر کیا ہے۔
اپنے سفر کا آغاز ہم نے بنگال کے مرشد آباد خطے سے کیا۔ نوابوں کے عہد میں بہار، اڑیسہ اور ڈھاکہ سے لے کر کلکتہ تک پورے بنگال کا انتظام یہیں سے چلتا تھا۔ یہ ایک سرحدی خطہ ہے اور شہر سے کچھ ہی دوری پر بنگلہ دیش کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔
بنگال اور آسام میں انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کے نزدیک بستیاں واقع ہیںبنگال اور آسام میں انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کے نزدیک بستیاں واقع ہیں۔ یہاں سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی ہے۔
یہاں سے ہزاروں باشندے انڈیا کے دور دراز کے شہروں میں جا کر کام کرتے ہیں۔ لیکن یہ سرحدی بستیاں ان دنوں خوف کی گرفت میں ہیں۔ یہاں ہر کسی کو اپنی شہریت کا ثبوت دینا ہو گا۔ یہاں انسانی زندگی کئی طرح کے دستاویزات کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔
بھگوان گولا گاؤں کے رہائشی فخرالعالم اور ان کے گاؤں کے لوگوں کو اس بات پر تکلیف ہے کہ صدیوں سے یہاں آباد ہونے کے باوجود ان کے انڈین شہری ہونے پر شک کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں جو ہمارا گھر ہے اس کے اطراف میں ہمارے آبا ؤ اجداد کی قبریں ہیں۔ (وزیر اعظم) مودی آ کر خود دیکھ لیں۔ ہم لوگ انڈین شہری ہیں۔ ہمیں بنگلہ دیشی شہری نہ قرار دیا جائے۔ ہمیں انڈیا میں رہنے دیں۔ جب کوئی ہمیں بنگلہ دیشی درانداز کہتا ہے تو ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘
کئی ديگر ریاستوں کے ساتھ چار نومبر سے بنگال میں بھی سبھی بالغ ووٹروں کی از سرنو فہرست تیار کرنے یعنی ایس آئی آر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ سرحدی اور دیہی علاقوں کے لاکھوں باشندے ووٹر لسٹ میں نام درج کرانے کے لیے مطلوبہ کاغذات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔
آصف فاروقی ایک مقامی سوشل ورکر ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فارم بھرنے میں کم پڑھے لکھے اور عموماً غریب باشندوں کی مدد کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں، خاص طور پر جو مسلم برادری کے لوگ ہیں وہ بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ اگر یہاں بی جے پی اقتدار میں آگئی تو وہ شہریت کے تعین کے لیے آسام جیسا این آر سی کرا دے گی۔
لوگ پیدائش کے سرٹیفیکیٹ حاصل کر رہے ہیں۔ ووٹر لسٹ میں نام صیحح کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایس آئی آر سے ایک ڈر پیدا ہو گیا ہے۔‘
بنگلہ دیش کی سرحد پر واقعریاست آسام میں شہریت کا سوال عشروں سے بہت پیچیدہ مسئلہ رہا ہےگذشتہ مئی اور جون میں دلی، ہریانہ، گجرات، مہاراشٹرا اور اڑیسہ جیسی بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو حراست میں لینے کی پولیس کی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر بنگالی بولنے والے انڈین تارکین وطن مزدوروں کو بھی حراست میں لے گیا تھا۔
بہت سے مزدوروں کو حراست میں ہی رکھا گیا تھا اور بعض بنگالی مزدوروں کو تو بنگلہ دیش کی سرحد پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا۔
ڈر اور خوف سے ہزاروں بنگالی محنت کش اپنا کام کاج چھوڑ کر واپس بنگال آ گئے تھے۔
مقامی شہری کمال الدین اڑیسہ میں کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والے سبھی لوگ بہت پریشان ہیں۔
ان کے مطابق ’ہم باہر جا کر کام کرنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ ہمیں پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے۔ حراستی مراکز میں قید کر دیتی ہے، جہاں سے کسی کو رہائی کا پروانہ ملتا ہے تو کسی کو بنگلہ دیش بھیج دیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ’بنگال سے باہر دوسری جگہ کہیں کام کرنے جاتے ہیں تو بنگالی بولنے کے سبب ہمیں بنگلہ دیشی کہا جاتا ہے۔ یہ سب بند ہونا چاہیے۔ موری گاؤں، آسام کا ایک سرحدی قصبہ ہے۔‘
خیرالاسلام انڈین شہری ہیں مگر ان کے مطابق اب خوف میں زندگی گزار رہے ہیں خیرالاسلام انڈین شہری ہیں اور 27 برس سے ایک سرکاری سکول میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ مئی میں جب غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین کے خلاف مہم شروع ہوئی تو حکام نے انھیں حراست میں لے کر ایک رات بنگلہ دیش کی سرحد کے اندر دھکیل دیا۔
شکایت درج ہونے کے بعد حکام انھیں واپس لے آئے۔ مگر وہ اب مسلسل خوف میں جی رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’میں 1973 میں یہیں پیدا ہوا، یہیں سے میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے کہا کہ ’جس سکول سے میں نے تعلیم حاصل کی تھی وہیں مجھے استاد کی ملازمت مل گئی۔ مجھے معلم کے طور پر جو سہولیات حاصل تھیں وہ آسام حکومت نے اب سب بند کر دی ہیں۔‘
بنگال اور آسام سے ہزاروں باشندے انڈیا کے دور دراز کے شہروں میں جا کر کام کرتے ہیںبنگلہ دیش کی سرحد پر واقعریاست آسام میں شہریت کا سوال عشروں سے بہت پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ سرحدی علاقوں میں اب مسلمانوں کی آبادی کو بھی سلامتی کا مسئلہ بتایا جا رہا ہے۔ مطیع الرحمان ایک مقامی سیاسی جماعت آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنما ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ یہاں نہ غیر قانونی نقل مکانی کا کوئی بڑا مسئلہ ہے اور نہ ہی آبادیوں کے تناسب میں کوئی بڑیتبدیلی آ رہی ہے۔
’یہاں آبادی کا تناسب اب پہلے جیسا نہیں ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی کی بڑھنے کی جو شرح رہی ہے وہ آزادی کے بعد سے اسی تناسب میں چلی آ رہی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر برادری میں پیدائش کی جو شرح تھی وہ گھٹتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی پیدائش کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔‘
انڈیا کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق آسام اور بنگال میں آبادی کے بڑھنے کی شرح 1961 سے 2011 تک مسلسل کم ہوتی رہی ہے۔ آبادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں پیدائش کی شرح میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔
لطف الرحمان آسام کے ایک فلم ساز اور سماجی کارکن ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف آبادی کے تناسب میں تبدیلی کا بیانیہ چل رہا ہے اور اور اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایس آئی آر یعنی سبھی بالغ افراد کی ووٹر لسٹ از سرنو بنائے جائے گی۔ اس سے یہاں کے مسلمان خوف کے احساس سے نکل نہیں پا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ ڈر ہے کہ جس طرح این آر سی کے بہت سے معاملات میں ہوا کہ کہیں ایس آئی آر میں بھی کچھ ایسا ہو کہ بغیر دستاویزات کی تصدیق کیے ہوئے ضلع کلکٹر یہ کہہ دیں کہ آپ بنگلہ دیشی ہو۔ رہی بات ثبوتوں کی تو یہاں لوگوں کے پاس دستاویزات ہیں جن سے ہم ثابت کر سکیں گے کہ ہم انڈین شہری ہیں۔‘
تو پھر یہاں مسلمانوں کی آبادی میں غیرمعمولی اضافے کا سوال کیوں پیدا ہو رہا ہے؟
آسام کے ایک سماجی کارکن نیلیم دتا کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہ کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے۔ یہاں گذشتہ تیس سے چالیس برس میں غیر قانونی تارکین کے آنے کا کوئی بڑا واقعہ درج نہیں ہوا ہے۔
اگر آپ میڈیا میں، اجلاسوں میں تعلیمی اداروں میں، سیاسی جلسوں میں اگر یہی بات بار بار دہرائیں گے تو وہ سچ لگنے لگتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے اس بیانیے سے سیاسی فائدہ ہوتا ہے‘۔
انڈیا کے الیکشن کمیشن نے بنگال سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں ووٹروں کی فہرست از سر نو بنانے کا کام شروع کیا ہےجنوبی ایشیا میں پناہ گزین، نقل مکانی اور شناخت پر کئی کتابوں کی مصنفہ انیندیتا گوشال کہتی ہیں کہ آسام اور بنگال جیسی سرحدی ریاستوں میں لوگوں کے لیے شہریت کے دستاویزات سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، جو ہندو خاندان ہیں ان کے پاس اتنی دستاویزات نہیں ہیں۔
’ان کو لگتا ہے کہ انڈیا ان کا ملک ہے۔ (ہندو ہونے کے سبب) وہ تو ویسے ہیشہری ہیں۔ لیکن جو مسلم لوگ ہیں وہ عدم تحفظ میں ہیں۔ ان کے پاس ہر طرح کی دستاویزات ہوتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔ ان کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ بہت ڈرے ہوتے ہیں۔ ہندو اتنے خوف میں نہیں ہیں۔‘