"ہماری شادی نے پورے پاکستان بلکہ دنیا کو گلگت بلتستان کی روایات کا ایک کریش کورس دے دیا۔ میری امی نے کہا کہ شوقا ضرور پہننا، یہ میرے ابو کا شوقا تھا جو انہیں میرے نانا سے ملا تھا۔ یہ ایک ایسا لباس ہے جو نسل در نسل چلتا آیا ہے۔ اور ہاں، میری پکھول ٹوپی کا پنکھ جسے ’شاتی‘ کہتے ہیں، وہ تو مجھے ہمیشہ عزیز رہا ہے۔"
یہ کہنا تھا مشہور گلوکار حسن رحیم کا، جنھوں نے حالیہ دیے گئے تازہ انٹرویو میں اپنی شادی کی وائرل تقریبات پر بات کر رہے تھے۔
حسن رحیم کا کہنا تھا کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کی شادی کے رقص اور مناظر اتنی تیزی سے مقبول ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا، "ہمارا رقص تو عام طور پر ایک محدود حلقے تک ہی پسند کیا جاتا ہے۔ مجھے لگا لوگ شاید کنفیوز ہوں گے، لیکن ردعمل دیکھ کر حیرت ہوئی۔ سب نے کہا کہ یہ کچھ نیا اور اچھا ہے جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ سب کو میری کوریوگرافی پسند آئی۔ میں نے تو دوستوں سے مذاق میں کہا کہ اگر میوزک نہ چلا تو ہم یہی ڈانس شروع کر دیں گے۔"
انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ رومانوی انداز میں ڈانس اور محبت کے اظہار پر ہونے والی تنقید کا بھی جواب دیا۔ حسن نے کہا، "کئی باتیں ذہن میں آئیں لیکن میں نے سب بند کر دیں، کیونکہ اگر میں یہ سوچتا کہ عوام کے سامنے بیوی سے محبت کیوں دکھاؤں، تو یہ کیمرے پر عجیب لگتا۔ میں تو بس بہت خوش تھا اور اپنی خوشی ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ شادی کا ہفتہ میری زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک تھا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ شروع میں یہ کبھی پلان نہیں تھا کہ شادی کو عوامی نظروں کے سامنے لایا جائے، لیکن جب والدہ نے پوچھا کہ کیا مہمانوں کے فون لے لیے جائیں تو میں نے کہا، "اگر ایسا کیا تو فیملی ناراض ہو جائے گی، اس لیے بہتر ہے جیسے ہے ویسے رہنے دیں۔"
حسن رحیم کی شادی نے نہ صرف سوشل میڈیا پر دھوم مچائی بلکہ گلگت بلتستان کی ثقافتی جھلک کو بھی دنیا کے سامنے لے آئی۔ روایتی لباس، رقص اور خاندانی ورثے کے امتزاج نے ان کی شادی کو ایک منفرد تقریب بنا دیا، جسے مداح اب بھی جوش و شوق سے یاد کر رہے ہیں۔