"میں آپ کا پی ٹی وی کے زمانے سے مداح ہوں مگر آپ کو ٹیٹو نہیں بنوانے چاہیے تھے۔"
"استغفراللہ… آپ سے یہ امید نہیں تھی۔"
"جو لوگ ٹیٹوز کا رونا رو رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے۔"
"دوسروں پر انگلیاں اٹھانا بند کریں، اصل جاننے والا صرف اللہ ہے… توقیق اپنا عمرہ جاری رکھیں۔"
توقیق حیدر، جو اپنی مہذب گفتگو، وقار اور جدید سوچ کی وجہ سے نوجوانوں میں خاص مقام بنا چکے ہیں، ان دنوں عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ میں موجود ہیں۔ جیسے ہی انہوں نے احرام میں کھڑے ہو کر اپنا ایک پُرسکون پیغام شیئر کیا، سوشل میڈیا کی توجہ اچانک ان کے ٹیٹوز کی طرف منتقل ہوگئی جو احرام کے کپڑوں سے صاف نظر آرہے تھے۔ لمحوں میں ویڈیو وائرل ہوئی اور ان کے ٹیٹوز کے جائز یا ناجائز ہونے پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔
کچھ صارفین نے اس تبدیلی پر مایوسی ظاہر کی، جبکہ کئی لوگوں نے انہیں بغیر جج کیے اپنا عبادت کا سفر جاری رکھنے کی دعا دی۔ اس ایک ویڈیو نے دکھا دیا کہ ہمارے ہاں ظاہری نشان کتنی جلدی بحث کا موضوع بن جاتے ہیں، حالانکہ نیت، عبادت اور اللہ سے تعلق کسی تصویر یا نشان کا محتاج نہیں۔ توقیق کا پیغام خاموشی سے دلوں کو چھو رہا تھا مگر تبصرے اس سے کہیں آگے نکل گئے، اور ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ سوشل میڈیا پر ہر تصویر کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہوتی ہے، لیکن دیکھنے والا صرف وہی دیکھتا ہے جو اسے نظر آئے۔