"یہ تو وہی حرکت ہے جو امجد صابری کی وفات پر کی گئی تھی، بیٹے کو بلایا، شوز کیے، اور ریٹنگ لی۔"
"میرے خیال میں اب ان بچوں کو رمضان ٹرانسمیشنز میں بلانا بند کر دینا چاہیے، حد کراس کر دی ہے۔"
"ان بچوں کے والدین اور میڈیا کے لیے یہ سب صرف کاروبار ہے۔"
"میڈیا ان کے لیے خاندان جیسا ہے، انہوں نے ان کے گھر بسائے، شہرت دی، روزگار دیا، ان پر تنقید نہ کی جائے۔"
پاکستان کے معصوم اور بےحد پسند کیے جانے والے چائلڈ اسٹار عمر شاہ کی 15 ستمبر 2025 کو اچانک موت نے پورے ملک کو غمزدہ کر دیا۔ ننھے عمر شاہ اپنی معصوم اداکاری، پیاری باتوں اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کی وجہ سے لاکھوں دلوں پر راج کر چکے تھے۔ ان کی شہرت کا آغاز رمضان ٹرانسمیشنز سے ہوا، جہاں انہوں نے 2020 سے باقاعدگی سے شرکت کی۔
تاہم عمر شاہ کی وفات کے بعد میڈیا اور ندا یاسر کے طرز عمل کو سوشل میڈیا صارفین نے ناپسند کیا۔ خاص طور پر ندا یاسر کو اُس وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب انہوں نے اپنی تقریر میں عمر شاہ کے لیے تعزیت کی، جسے مداحوں نے "مصنوعی" اور "ریٹنگ کے لیے" قرار دیا۔
بعد ازاں ندا یاسر نے ایک خصوصی شو بھی کیا، جس میں وسیم بادامی، سعدیہ امام، اور عمر شاہ کے والدین اور چچا کو مدعو کیا گیا۔ اس پروگرام کو بھی مخلوط ردعمل ملا کچھ لوگوں نے اسے جذباتی اور خراج تحسین سمجھا، تو کچھ نے اسے محض "ریٹنگ کا کھیل" کہا۔
نجی چینل کی تقریب میں احمد شاہ اور ابوبکر شاہ کو اسٹیج پر بلایا گیا، جہاں انہوں نے عمر شاہ کو یاد کیا۔ احمد شاہ بارہا جذباتی ہو کر روئے، اور حاضرین کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
مگر اس موقع پر بھی بحث چھڑ گئی۔ کچھ صارفین نے سوال اٹھایا کہ کیا بچوں کے دکھ کو یوں بار بار اسکرین پر لانا درست ہے؟ ایک صارف نے تو یہ بھی لکھا، "یہ سب بزنس ہے، چاہے وہ بچوں کے والدین کے لیے ہو یا چینل کے لیے۔" جبکہ ابو بکر اور احمد شاہ کو بھی بھائی کے انتقال کے فوراؐ بعد تقریب میں شرکت پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
دوسری طرف، کچھ مداحوں کا کہنا تھا کہ اے آر وائی نے ان بچوں کو اس مقام تک پہنچایا، ان کے خواب پورے کیے، اور ہمیشہ ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھا لہٰذا تنقید نہیں بلکہ شکرگزاری ہونی چاہیے۔