بھارت میں پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے ڈاکٹروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی لکھائی بہتر کریں تاکہ طبی نسخے واضح اور آسانی سے پڑھنے کے قابل ہوں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک کیس کی سماعت کے دوران جج نے سرکاری ڈاکٹر کی تیار کردہ میڈیکو لیگل رپورٹ دیکھی جسے پڑھنا ممکن نہ تھا۔ جج نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی بات ہے کہ اس رپورٹ کا ایک بھی لفظ پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آج کے جدید دور میں جب کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی ہر جگہ دستیاب ہیں، یہ ناقابلِ قبول ہے کہ ڈاکٹرز اب بھی ایسی ہینڈ رائٹنگ میں نسخے لکھیں جو صرف چند فارماسسٹ ہی سمجھ سکیں۔
عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ میڈیکل کالجز کے نصاب میں خوشخطی کی تربیت شامل کی جائے اور دو سال کے اندر نسخے لکھنے کے نظام کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ اس دوران تمام ڈاکٹروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نسخے کیپیٹل لیٹر میں لکھیں تاکہ دوا کے نام میں کسی قسم کی غلطی نہ ہو۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام مریضوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
عالمی رپورٹس کے مطابق امریکا میں صرف 1999 تک ہر سال 7 ہزار افراد ڈاکٹروں کی ناقابلِ فہم ہینڈ رائٹنگ کے باعث غلط ادویات ملنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے جبکہ بھارت میں بھی ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔