ایک پرجوش ہاں کے بعد کیرول کی ویبر کے گھر میں ملاقات ہوئی، جہاں اُن کی بیٹی بھی موجود تھیں۔ اپنے حقیقی بات کو دیکھتے ہیں ویل نے اپنی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اوہ یہ تو واقعی بہت ہینڈسم ہیں۔‘
کیرول اور ویبر 60 کی دہائی میں ایک دوسرے کے دوست بنے اور اس دوران ویبر نے ایک بچی کو جنم دیایہ سنہ 1967 تھا، جب کیون کیرول اور ڈیبی ویبر نے پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ دونوں نو عمر تھے اور اپنے ہائی سکول تھیٹر گروپس کے ارکان تھے اور پہلی ہی نظر میں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔
کیرول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں لڑکوں اور ڈیبی لڑکیوں کے سکول میں پڑھتی تھیں، ہم ایک آڈیشن میں، ایک آڈیٹوریم میں تھے۔ میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ وہ لڑکی دیکھو، میں اسے سکول ڈانس میں ساتھ لے جاؤں گا۔‘
ویبر اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں آڈیٹوریم میں اکیلی بیٹھی تھی کیونکہ میں دوسرے سکول کی لڑکیوں میں سے کسی کو نہیں جانتی تھی جو آڈیشن کے لیے آئی تھیں لیکن مجھے یاد ہے جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ سب سے پیارا لڑکا ہے جو میں نے کبھی دیکھا تھا۔‘
اس ملاقات کے بعد دونوں نہ صرف ایک ساتھ رقص کرنے گئے تھے بلکہ اس کے بعد اُنھوں نے کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی قسمیں بھی کھائیں۔ یہاں تک کہ اُنھوں نے میری لینڈ بھاگ جانے کا بھی منصوبہ بنایا، جہاں اُن کے لیے شادی کرنا آسان تھا۔
لیکن اچانک سب کچھ بدل گیا، ویبر حاملہ ہو گئیں اور اس خبر نے اُن کے خواب چکنا چور کر دیے اور یہ جوڑا 40 برس تک ایک دوسرے سے دُور رہا۔
آج وہ دوبارہ ایک دوسرے کو مل گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اُس پرانی محبت کو دوبارہ یاد کر رہے ہیں جس کا تجربہ وہ اپنی جوانی میں کر چکے ہیں لیکن 40 برس تک ایک دوسرے سے دُور رہنے کی یہ کہانی کسی ہالی وڈ فلم جیسی ہے۔
غیر متوقع خبر
ویبر کے والدین کو اُس وقت کی سماجی اقدار کے تناظر میں شادی کے بغیر جب بیٹی کے حمل کا پتا چلا تو وہ اس کے باوجود اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے تھے۔
ویبر کہتی ہیں کہ ’وہ بہت پیار کرنے والے تھے، وہ کیون سے پیار کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور ہم ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔‘
اُن کے بقول اُس وقت حاملہ ہونے والی لڑکیوں کے لیے حالات بہت مختلف تھے اور یہی وجہ تھی کہ والدین نے مجھے اکیلی ماؤں کے سینٹر بھیجنے کا بندوبست کیا اور کیون کو مجھ سے ویک اینڈ پر ملنے کی اجازت دی۔
کیون کو یہ اجازت بھی دی گئی کہ وہ مجھے اپنے ساتھباہر ڈرائیو اور ڈنر پر لیجائے۔
اس دوران دونوں اس امید پر قائم رہے کہ کسی وقت وہشادی کر لیں گے اور مشترکہ طور پر اس بچے کی پرورش کریں گے جو پیدا ہونے والا تھا۔
کیون نے 17 سال کی عمر میں اپنی والدہ کو منا لیا کہ وہ امریکی فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہیںکیون اس بات کے اتنے قائل ہو چکے تھے کہ اُنھوں نے 17 سال کی عمر میں اپنی والدہ کو منا لیا کہ وہ امریکی فوج میں بھرتی ہونا چاہتے ہیں۔
کیون کہتے ہیں کہ ’مجھے پتہ چلا کہ اگر میں فوج میں بھرتی ہو گیا تو پھر شادی نہ ہونے کے باوجود میں اپنی گرل فرینڈ اور ہونے والے بچے کے لیے رقم بھیج سکوں گا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اُمید تھی کہ اگر فوج نے مجھے تربیت کے لیے باہر جانے دیا تو ہم شادی کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ سب صرف ایک اُمید ہی رہ گئی۔
فوجی تربیت کے دوران کیون کو ویبر کا ایک خط موصول ہوا جس میں اُنھوں نے کہا کہ وہ بچے کو کسی کو گود دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
کیون کہتے ہیں کہ ’یہ میرے لیے ایک اچانک جھٹکا تھا، میں اُس وقت زیر تربیت تھا اور وہاں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا لیکن میرے اندر کی دُنیا اُجڑ چکی تھی۔‘
زندگی کے موڑ
کیرول تربیت ختم ہونے کے بعد ویتنام جنگ میں لڑنے کے لیے جانے والے تھے۔ اس دوران ویبر کو اپنے بچے کو سے متعلق ڈراؤنے خوابوں نے ستایا۔
ویبر کو اُس وقت کچھ راحت ملی، جب اُنھیں ایک خاندان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ بچہ گود لینے کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کے چار بیٹے ہیں۔
آخرکار ویبر نے ایک بچی کو جنم دیا، جو ہوبہو کیرول جیسی تھی اور اُنھوں نے خاندان کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہونے کے باوجود بچی کو اس فیملی کے حوالے کر دیا۔
ویل کو اُنھیں گود لینے والی خاتون نے اُٹھا رکھا ہےکیرول، ویتنام میں تھے، جب ویبر کے خاندان نے اُنھیں نئی زندگی شروعکرنے کا کہا۔
کیرول کہتے ہیں کہ ’ویتنام میں اُن کا کام لڑائی کے دوران زخمی ہونے والے پائلٹس کی مدد کرنا تھا۔ 10 اکتوبر 1969 کو ہم ایک ایسے ہی آپریشن میں حصہ لے رہے تھے، جب دھماکہ خیز مواد کے کچھ چھرے میرے بازو اور ٹانگوں پر لگے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں زندہ بچ سکوں گا لیکن وہ بچ گئے۔ پھر کیرول کو صحت یابی کے لیے امریکہ واپس آنے سے پہلے فلپائن اور پھر جاپان لے جایا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس دوران میری 18 سرجریاں ہوئیں۔ اس کے بعد میری پھر 20 سرجریاں ہوئیں۔ میں وہیل چیئر سے واکر، واکر سے بیساکھیوں، بیساکھیوں سے چھڑی تک گیا اور پھر میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘
اور اس سب کے بیچ میں نے ویبر کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
اُدھر ویبر اپنے ماضی کو بھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اُنھوں نے کئی شادیاں کیں اور اُن کی تین بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں۔
کیرول کو کئی برسوں تک اپنی بیٹی کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا۔
آخر کار ملاپ
ویل کو ایک ایسے خاندان میں گود لیا گیا تھا جس میں چار بھائی تھے آخر کار ویبر نے اپنی بیٹیوں کو سچ بتانے کا فیصلہ کیا۔
’یہ مدرز ڈے تھا، ہم باورچی خانے میں تھے اور میں نے کہا کہ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ جب میں بہت چھوٹی تھی تو میری ایک بچی تھا۔ میں ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی اور پھر ہم جدا ہو گئے۔‘
ویبر نے کہا کہ اُن کی ایک بیٹی نے بچی کا کھوج لگانے کی ٹھانی اور مجھ سے اُس خاندان کی کچھ تفصیلات پوچھیں جنھیں میں نے اپنی بچی کو گود دیا تھا۔
ویبر کہتی ہیں کہ مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ اُس خاندان کے چار بیٹے ہیں اور اُس علاقے کا پتہ تھا، جہاں یہ خاندان رہتا تھا۔
ویبر کی بیٹی کے لیے یہ اشارے کافی تھے اور آخرکار اُنھوں نے اس خاندان کو تلاش کیا اور اس خاندان کے ایک بیٹے سے اُن کا رابطہ ہوا۔ جواب میں ویبر کو ایک فون کال موصول ہوئی۔۔۔ دوسری طرف اُن کی بیٹی ویل تھی۔
اپنی بیٹی ویل کے ساتھ دوبارہ ملنا ویبر کے لیے ضروری تھا تاکہ وہ اس شرمندگی کو دور کر سکیں جو اُنھوں نے گود دینے کے بارے میں محسوس کیاویل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے اُنھیں رات کو آٹھ بچے فون کیا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘
ویل نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں۔ ویبر کہتی ہیں کہ یہ سننا تھا کہ میرا سارا احساس جرم اور شرمندگی ختم ہو گئی۔
لیکن اس کے بعد سوال یہ تھا کہ ویل کے حقیقی والد کون ہیں؟
ویبر نے کیرول کی آن لائن تلاش شروع کی اور اُنھِیں کیرول کی بیوی کی وفات کے حوالے سے کچھ پوسٹس ملیں، جس کے بعد اُنھوں نے کیرول کو خط لکھا۔
ویبر نے لکھا کہ ’مجھے آپ کے حالیہ نقصان پر افسوس ہے۔ میں اپنے سکول کے دنوں کے بارے میں کرنا پسند کروں گی، مجھے اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔‘
ویبر نے خط کے ساتھ اپنا ٹیلی فون نمبر بھی شیئر کیا۔
کیرول کے لیے یہ خط ایک معجزہ تھا۔ ’میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھولوں گا جب مجھے وہ خط ملا۔ میں سیدھا فون پر گیا اور کہا کہ مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہم یہ بات چیت کر رہے ہیں۔‘
کیرول سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی بیٹی سے ملنا چاہتے ہیں تو انھوں نے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کیویبر نے کہا کہ مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے، میں نے اپنی بیٹی کو ڈھونڈ لیا، کیا آپ اس سے ملنا چاہتے ہیں؟
ایک پرجوش ہاں کے بعد کیرول کی ویبر کے گھر میں ملاقات ہوئی، جہاں اُن کی بیٹی بھی موجود تھیں۔ اپنے حقیقی باپ کو دیکھتے ہی ویل نے اپنی ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اوہ یہ تو واقعی بہت ہینڈسم ہیں۔‘
ویل اور ان کے والد نے گھنٹوں بات کی۔ کیرول نے پھر اعتراف کیا کہ اُنھوں نے ویبر سے مجبت کرنا کبھی نہیں چھوڑا۔
کیرول اور ویبر 40 سال سے الگ تھے، اب ان کی شادی کو ایک دہائی سے زیادہ ہو چکی ہےبھاگ کر شادی کرنے کے ناکام منصوبے کے 40 سال بعد آخرکار کیرول اور ویبر نے شادی کر لی۔ اب دونوں کی عمریں 70 سال سے زیادہ ہیں۔
ویبر کا کہنا تھا کہ ’ہم زندگی کے اس مرحلے کے دوران ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے سے پیار کرنے کے قابل ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘