ملیے ’پیرس کے آخری اخبار ہاکر‘ علی اکبر سے، جن کا تعلق پاکستان سے ہے

image

پیرس کی گلیوں میں سال ہا سال سے اخبار فروخت کرنے والے علی اکبر کو شہر کے تقریباً سبھی لوگ جانتے ہیں اور وہ بھی سب کو جانتے ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے علی اکبر 50 سال سے اخبار فروخت کر رہے ہیں اور انہیں  پیرس کا ’آخری ہاکر‘ بھی کہا جاتا ہے۔

علی اکبر کا انداز بڑا دلچسپ ہے، وہ اخبار کی ہیڈ لائنز کو اونچی آواز میں ایسے پڑھتے ہیں کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

اردگرد کا ماحول ان سے اس قدر مانوس ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو تو علاقے کی دیواریں بھی جانتی ہیں اور ان کے بارے میں بات بھی کرتی ہیں۔  

مارچے سینٹ جرمین کے سامنے ایک ریستوران میں کام کرنے والی آمنہ قیسی کا کہنا ہے کہ وہ 20 سال سے علی اکبر کو جانتی ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دبلے  پتلے 73 سالہ علی اکبر یہاں کا ایک زبردست کردار ہیں جو بازو کے نیچے اخبارات دبائے دلچسپ انداز میں آگے بڑھتے اور آواز لگاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ علی اکبر اس قدر مشہور ہیں کہ اگر کبھی نظر نہ آئیں تو لوگ ان کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔

فرانسیسی حکومت نے پانچ اگست کو علی اکبر کے لیے اعلیٰ سول اعزاز کا اعلان کیا تھا (فوٹو: کیٹز)

خیال رہے پانچ اگست 2025 کو فرانسیسی حکومت کی جانب سے ان کے لیے اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور صدر ایمانوئیل میکخواں ان کو جلد ہی’دی نیشنل آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازیں گے۔

یہ ایک ایسا انعام ہے جو حکومت کی جانب سے ملک کے لیے سول یا فوجی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔

اعزاز کے حوالے سے علی اکبر کہتے ہیں کہ ’جب مجھے علم ہوا تو یقین نہیں آیا، ہو سکتا ہے صدر کو ان کے دوستوں نے کہا ہو یا پھر انہوں نے خود ہی فیصلہ کیا ہو کیونکہ جب وہ طالب علم تھے تو اکثر راستے میں ان سے ملاقات ہو جایا کرتی تھا۔‘

علی اکبر کے مطابق ’مجھے یقین ہے کہ یہ میری محنت کا صلہ ہے کیونکہ میں نے بہت لگن سے کام کیا ہے۔‘

گول چشمہ، نیلے رنگ کی جیکٹ اور پی کیپ پہننے والے علی اکبرفرانسیسی اخبار ڈیلی لے موندے کی کاپیاں فروخت کرتے ہیں۔

 

صدر ایمانوئیل میکخواں جلد ہی علی اکبر کو سول اعزاز سے نوازیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

علی اکبر جب  بیس برس کی عمر میں فرانس پہنچے تو خواب یہی تھا کہ غربت سے نجات پائیں اور پاکستان میں اپنے گھر والوں کو پیسے بھجوا سکیں۔ پہلے جہاز پر ملاح کی نوکری کی، پھر شمالی شہر روان کے ایک ریستوران میں برتن دھونے کا کام کیا۔

پیرس میں قسمت نے کروٹ بدلی۔ ’پروفیسر شوروں‘ کے نام سے معروف، مزاح نگار جارج برنیئر سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے علی اکبر کو طنزیہ اخبارات ہارا کیری اور شارلی ایبدو بیچنے کا موقع دیا۔

علی اکبر نے بے گھری، غربت اور حملوں تک کا سامنا کیا، مگر کبھی ہمت نہیں ہاری۔ اپنے بیٹے شہاب سے، جو پانچ بچوں میں سب سے چھوٹا ہے اور اب تیس برس کا ہے، وہ مزاحیہ لہجے میں کہتے ہیں: ’ایمانویل میکخواں میرے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔‘ شہاب اپنے والد پر فخر کرتا ہے اور غیر ملکی پریس میں چھپنے والی ان کی پروفائلز جمع کرتا رہتا ہے۔

1970 کی دہائی میں اکبر نے دریائے سین کے بائیں کنارے سے اخبار بیچنے کا آغاز کیا، جو اس وقت طلبہ کا مرکز تھا۔ وہیں سائنس پو یونیورسٹی کے باہر طلبہ سے باتوں باتوں میں فرانسیسی سیکھی۔ انہی میں ایڈورڈ فلپ بھی شامل تھے جو بعد میں فرانس کے وزیر اعظم بنے۔

علی اکبر 1973 سے پیرس کے مشہورعلاقے فیشن لیٹن کوارٹر میں اخبارات بیچ رہے اور سبھی ان کو جانتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

پیرس میں کبھی چالیس کے قریب اخبار فروش ہوتے تھے، زیادہ تر میٹرو سٹیشنز کے قریب کھڑے رہتے تھے۔ علی اکبر نے اس کے برعکس لاطینی کوارٹر میں گھوم پھر کر بیچنے کا طریقہ اپنایا۔ 1980 کی دہائی میں انہوں نے اخباروں کے لیے سنسنی خیز سرخیاں گھڑنا شروع کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتا ہوں لوگ خوش رہیں، بس اسی لیے مزاح کرتا ہوں۔‘

اب مگر وہ مانتے ہیں کہ مذاق تراشنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ’سب کچھ اتنا الجھا ہوا ہے۔‘

علی اکبر کو ایک ہزار یورو ماہانہ پنشن ملتی ہے لیکن وہ اب بھی روز شام تین بجے سے رات دس بجے تک کام کرتے ہیں۔ آج کل ان کے گاہک کم ہیں، روزانہ بمشکل تیس اخبار بکتے ہیں، جبکہ شروع میں یہ تعداد ڈیڑھ سے دو سو تک ہوتی تھی۔

وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ ’جب تک توانائی ہے کام کرتا رہوں گا، مرتے دم تک۔‘

ایک کیفے کی چھت پر بیٹھے ایک مقامی شخص، امل غالی نے کہا کہ ’اکبر واقعی متاثر کن ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں انہیں دیکھنا خوشی دیتا ہے۔ افسوس کہ ہماری آنے والی نسلیں اخبار اور کافی کے ساتھ یہ لطف نہیں لے سکیں گی۔‘


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US