جہاں اس وقت ہر درد مند دل گریٹا کی سلامتی کے لئے دعا کررہا ہے وہیں سوشل میڈیا صارفین ان کا مقابلہ مسلمان شناخت رکھنے والی پاکستان کی ملالہ یوسفزئی سے بھی کررہے ہیں جنھیں دنیا سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ اور خواتین کے حق کی علمبردار کے طور پر جانتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیے پر جب کشتیوں کا ایک قافلہ بھوک اور بیماری سے نڈھال غزہ کے بچوں کے لیے دودھ اور دوائیں لے کر نکلا تو عالمی طاقتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہیں اور جب اسرائیلی افواج نے ان کشتیوں کو روکا تب سب کی نظریں جا ٹہریں گریٹا تھنبرگ پر، وہی لڑکی جو دنیا کو موسمیاتی تبدیلی پر جگانے نکلی تھی، اب قیدیوں کی قطار میں تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتیں، جو قانون پر عملدرآمد کی دعویدار ہیں، دیکھتی رہیں اور ایک نوجوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر وہ کام کرتی رہی جو ریاستوں کو کرنا چاہیے تھا۔
گزشتہ دنوں بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ گریٹا کو نہ صرف جیل میں تنگ و غلیظ کوٹھڑی میں رکھا گیا بلکہ کم خوراک اور پانی دیا گیا، وہ کھٹملوں سے زخمی ہوئی، اور اسرائیلی پرچم تھامنے اور چومنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک ترک کارکن کے مطابق گریٹا کو بالوں سے گھسیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تاکہ سب پر خوف طاری ہو۔ یہ ظلم کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک لڑکی کو صرف اس لیے "ٹرافی" کی طرح پیش کیا گیا کیونکہ وہ محصور انسانوں کی آواز بنی؟
دوسری طرف ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب غزہ جل رہا تھا تب ملالہ کا نام ایک ایسے آف براڈوے شو کے پروڈیوسر کی حیثیت سے سامنے آیا جہاں وہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔ یہ وہی ہلیری ہیں جو فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے دوران طلبہ کے احتجاج کو "ان پڑھوں" کا پروپیگنڈا کہہ کر مسترد کرتی رہیں۔ عوامی تبصروں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ وہ لمحہ نہیں تھا جب ملالہ اپنی شہرت کو کسی واضح، جرات مندانہ اور فلسطین کے بے بس عوام کے لئے استعمال کرتیں؟

عوام کا گریٹا اور ملالہ کا تقابل کرتے ہوئے موقف ہے کہ ایک طرف وہ نوجوان لڑکی ہے جو اپنا آرام، اپنی حفاظت اور اپنی شناخت داؤ پر لگا کر ظلم کے خلاف کھڑی ہوئی اور دوسری طرف وہ عالمی شخصیت ہیں جو ایک محفوظ پلیٹ فارم پر کھڑی رہیں مگر وہاں سے وہ آواز نہیں بلند کی گئی جس کی عوام کو توقع تھی۔ صارفین نے یہی کہا کہ طاقت صرف تصویر کھنچوانے یا کتاب چھپوانے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے عملی قدم اٹھانے کے لیے بھی ہے۔ البتہ کچھ صارفین کا یہ خیال ہے کہ اس حوالے سے ملالہ سے موازنہ کچھ مناسب نہیں کیونکہ دنیا میں بہت سے ایسے سماجی کارکن ہیں جو غزہ کے حوالے سے ہمدردانہ رائے تو رکھتے ہیں تاہم عملی قدم نہیں اٹھا رہے، تو جب کسی سماجی شخصیت کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا گیا تو صرف ملالہ پر تنقید بے جا ہے۔
یہ دونوں مثالیں ہمیں یہ دکھاتی ہیں کہ شہرت اور طاقت کو کس طرح برتا جا سکتا ہے۔ گریٹا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سچائی کے ساتھ کھڑا ہونا کسی بھی ایوارڈ سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور ملالہ کے انتخاب عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا شہرت کا بوجھ صرف کامیابی کی تقریبات تک محدود رہنا چاہیے یا مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے؟