فرانس میں حکومت بننے کے چند گھنٹے بعد مستعفی، سیاسی بحران میں شدت

image

کابینہ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد فرانس کے نئے وزیراعظم سیبستین لکورنو اور ان کی حکومت نے پیر کو استعفیٰ دے دیا۔ یہ جدید فرانسیسی تاریخ کی سب سے کم مدت تک قائم رہنے والی حکومت بن گئی جس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ اور یورو کی قدر میں تیزی سے کمی آئی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ اچانک استعفیٰ غیر متوقع تھا، یہ صورتحال ایسے وقت میں بنی ہے جب اتحادیوں اور حریفوں کی جانب سے نئی حکومت کو گرانے کی دھمکی دی گئی تھی۔

سیبستین لکورنو صرف 27 روز وزیراعظم رہے اور ان کی حکومت محض 14 گھنٹے ہی چل پائی۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی نے صدر ایمانویل میکخواں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کریں جبکہ دوسری جانب بائیں بازو کی جماعت کا کہنا ہے کہ صدر میکخواں کو بھی لازمی طور پر جانا چاہیے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ کئی ہفتوں پر محیط مشاورت کے بعد صدر میکخواں کے قریبی ساتھی لیکورنو نے اتوار کو اپنے وزرا کا انتخاب کیا تھا اور ان کا پہلا اجلاس آج دوپہر کے وقت ہونا تھا۔

 رپورٹ کے مطابق لیکورنو نے پیر کی صبح اپنا استعفیٰ صدر میکخواں کو پیش کیا۔

ایلیسی پیلس کے پریس آفس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ’سیبستین لکورنو نے صدر کے پاس استعفیٰ بھجوایا جو کہ انہوں نے مںظور کر لیا ہے۔‘

اپوزیشن قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے

صدر ایمانویل میکخواں کے گزشتہ سال پارلیمانی انتخابات جلد کرانے کے فیصلے نے بحران کو مزید گہرا کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک اور زیادہ منتشر پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ لکورنو جنہیں گزشتہ ماہ وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا، دو سالوں میں میکخواں کے پانچویں وزیراعظم تھے۔

نیشنل ریلی کے رہنما جورڈن بارڈیلا نے کہا ہے کہ استحکام کی بحالی انتخابات کے بغیر ممکن نہیں، قومی اسمبلی کو تحلیل کیا جائے۔

فرانس انبووڈ پارٹی کی ماتھلد پانو نے کہا کہ ’لکورنو نے استعفیٰ دے دیا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں تین وزرائے اعظم ناکام ہو چکے ہیں۔ الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ میکخواں کو جانا ہو گا۔‘

گہری غیر یقینی صورتحال

فرانس میں 1958 میں موجودہ نظام حکومت یعنی ففتھ ریپبلک کے قیام کے بعد سے سیاسی بحران کبھی اس حد تک گہرا نہیں ہوا، جتنا اب ہے۔

1958 کا آئین اس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا کہ مضبوط اکثریت رکھنے والے صدر کے ذریعے ایک مستحکم حکومت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس میں اختیارات کا مرکز صدر کے پاس رکھا گیا تاکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور بعد کے غیر مستحکم ادوار سے بچا جا سکے۔

لیکن اس کے برعکس، میکخواں جنہوں نے 2017 میں اقتدار میں آ کر ملکی سیاسی منظرنامے کو یکسر بدل دیا اور آج ایک منتشر پارلیمنٹ کا سامنا ہے جہاں مرکز اپنی حیثیت کھو چکا ہے اور انتہائی دائیں بازو اور سخت بائیں بازو فیصلہ کن اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US