بُھولی فصلیں واپس لانے والی انڈین خواتین کی کوششوں کا عالمی سطح پر اعتراف

image

جب فاطمہ بی بی نے 2018 میں زراعت کے بارے میں علم حاصل کرنا شروع کیا تو وہ کرناٹک کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے اپنے خاندان کی پہلی خاتون تھیں جو اس میدان میں آئیں۔

اس وقت انہیں علم نہیں تھا کہ چند برس بعد وہ ایک ایسے گروپ کی قیادت کریں گی جس کو پائیدار کاشتکاری کے حوالے سے عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے گا۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملک کے جنوب مغربی حصے میں واقع ریاست میں غیر متوقع موسمیاتی صورت حال کی وجہ سے زراعت کافی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ بحیرہ عرب کے ساحل سے تقریباً 100 کلومیٹر دور یہ خطہ نیم خشک ہے اور فصلوں کا زیادہ تر دارومدار مون سون سیزن پر ہوتا ہے جو کہ بذات خود موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا براہ راست اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑتا ہے اور اگر بارشیں تاخیر کا شکار ہوں تو پیداوار کم ہو جاتی ہے۔

ایسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فاطمہ بی بی اور ان کے 15 رکنی سیلف ہیلپ گروپ نے ضلع دھارواڑ کے گاؤں ٹیرتھا سے کاشتکاری کے روایتی طریقے دوبارہ متعارف کروائے، جن میں باجرے کی کاشت بھی شامل تھی۔

یہ ایسی فصلیں ہیں جو خشک سالی کو برداشت کر سکتی ہیں اور کئی دہائیاں قبل خشک زمینوں میں بھی پروان چڑھتی تھیں، ان کو پانی کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے اور علاقے کی پہلے سے ہی کم زرخیز زمین کی زرخیزی کو کم نہیں کرتیں۔

ان خواتین نے کرناٹک کی این جی او سہاجا سمرودھا سے تربیت حاصل کی ہے جو پائیدار زراعت اور زرعی تنوع کے ذریعے دیہات میں رہنے والے طبقات کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔

فاطمہ بی بی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں نے اپنے سفر کا آغاز 2018 میں کیا۔ میں ایک گھریلو عورت تھی، میرے خاندان والوں نے کبھی بھی گھر کی خواتین کو باہر نہیں بھیجا، یہ سب تب شروع ہوا جب سہاجا سمرودھا والے ہمارے گاؤں میں آئے۔‘

60 کی دہائی سے قبل باجرے کی فصل انڈیا میں بہت مقبول تھی (فوٹو: ایگریکلچر ڈاٹ کام)

ان کے علاوہ دیگر خواتین نے پہلے گاؤں میں بنائے گئے مرکز اور اس کے بعد میسور کے سینٹر سے تربیت حاصل کی، جہاں انہیں بیجوں، مٹی کے تحفظ اور کاشت کاری کے مختلف طریقوں کے بارے میں سکھایا گیا جو مصنوعی کھاد کیڑے مار ادویات پر انحصار نہیں کرتے۔

یہ خواتین بعدازاں ایک ایسے گروپ کی شکل میں سامنے آئیں جنہوں نے ان طریقوں کو آگے پھیلایا اور لوگوں کو آرگینک کاشکاری کی طرف راغب کیا۔

فاطمہ بی بی کہتی ہیں کہ ’ہم نے کاشتکاروں میں بیج کے تحفظ کے علاوہ فصلوں کو محفوظ بنانے اور ان کی اہمیت کو فروغ دینے سے متعلق مہم شروع کی اور کووڈ19 کی وبا کے دوران بھی ہم متحرک رہے۔‘

اپنی مہم کے اثر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے یہاں تک بہتری آئی کہ 60 کی دہائی کی مقبول فصل باجرے کی واپسی ہوئی جو کہ سبز انقلاب سے قبل کرناٹک میں بہت مقبول تھی، جس کے بعد گندم، چاول اور مکئی کی فصلوں کے ساتھ ساتھ کیمائی کھادوں اور آبپاشی کے نظام کو بھی فروغ ملا تھا۔‘

تاہم برسوں کے دوران مٹی کی زرخیزی میں کمی، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی سطح کم ہونے نے ایسی فصلوں کو خشک سالی کا شکار بنا دیا ہے جبکہ باجرہ اس صورت حال میں دوبارہ زندہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو یہ بات سمجھنے میں چند سال لگے کہ باجرہ اگانا زیادہ محفوظ اور منافع بخش ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی جانب سے انڈین خواتین کو ایکویٹر اینیشٹیو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے (فوٹو: یو این)

ان کا کہنا تھا کہ ’جب نامیاتی کاشتکاری شروع کی گئی تو پہلے تین سال پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تاہم تاہم اب کھیتوں کی وسعت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔‘

یہ گروپ 30 دیہات میں پانچ ہزار کسانوں کی مدد کر رہا ہے جس میں جوار کی مختلف اقسام کو کمیونٹی میں تقسیم کیا جاتا ہے اور پودوں کی بڑھوتری کے مراحل کے علاوہ اس کے آٹے کے حصول کے لیے بھی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔

اگست میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے سیلف ہیلپ گروپ کو اس کی خدمات کے صلے میں ایکویٹر اینیشٹیو ایوارڈ سے نوازا، جس کو ’نوبیل انعام برائے حیاتیاتی تنوع‘ بھی کہا جاتا ہے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US