امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برملا کہا ہے کہ وہ نوبیل پرائز لینے کا جنون رکھتے ہیں، تاہم دو بار صدر بننے کے باوجود یہ ایوارڈ ان سے دور ہی رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نوبیل پرائز کے فاتح کے نام کا اعلان جمعے کو کیا جائے گا۔
اپنی بیان بازی کے لیے مشہور صدر ٹرمپ تارکین وطن کے خلاف مہم اور غیرملکی آمروں کے لیے پسندیدگی رکھنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ایسے امیدوار ہیں جس کی جیت کا امکان بہت کم ہے۔
ستمبر میں امریکی فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’کیا آپ نوبیل انعام حاصل کر پائیں گے، بالکل نہیں، وہ اسے ایک ایسے شخص کو دیں گے جس نے کچھ نہ کیا ہو۔‘
تاہم اسی سانس میں ہی انہوں نے پرائز کے لیے اپنے جذبات کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ ’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کی بڑی توہین ہو گی، یہ میں نہیں چاہتا، میں چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک اسے حاصل کرے، اس کو یہ ملنا چاہیے۔‘
صدر ٹرمپ جن جنگوں کو رکوانے کا کریڈٹ لیتے ہیں ان میں ایران کا نام بھی شامل ہے، جس پر جون میں انہی کے حکم پر حملہ بھی کیا گیا تھا (فوٹو: سکرین شاٹ)
جیسے جیسے نارویجین کمیٹی کی جانب سے اعلان کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، امن انعام کے لیے ٹرمپ کی بے تابی اور حصول کے لیے شروع کی گئی مہم کا سلسلہ بھی انتہائی تیز ہو گیا ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران بمشکل ہی کوئی ایسا موقع گزرا ہو گا جس میں صدر ٹرمپ نے اپنے اس کردار کا بار بار تذکرہ نہ کیا ہو کہ کس طرح انہوں نے سات جنگیں رکوائیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری ایک دستاویز میں ان کی جنگوں کے تدارک کے حوالے سے تفصیل بتائی گئی ہے۔
اس میں کمبوڈیا اور تھائی لینڈ، کوسوو اور سربیا، کانگو اور روانڈا کے علاوہ پاکستان اور انڈیا، اسرائیل اور ایران، مصر اور ایتھوپیا اور آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والے والی لڑائیوں کا ذکر موجود ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ رکوانے کے ٹرمپ کے دعوؤں کو بھی جزوی طور پر درست نہیں مانا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ان جنگوں کو روکنے کا کریڈٹ لینے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیا، جس کی مثال کے طور پر مئی میں جوہری طاقتیں رکھنے والے اسلام آباد اور دہلی کے درمیان مئی میں ہونے والی جنگ کا حوالہ دیا جاتا ہے کیونکہ اس بارے میں ان کے زیادہ تر دعوؤں کو جزوی طور پر غلط قرار دیا جاتا ہے۔
اس فہرست میں ایک نام ایسے ملک کا بھی موجود ہے جس پر صدر ٹرمپ کے ہی احکامات کے تحت بمباری کی گئی تھی، انہوں نے جون میں ایران پر حملوں کے احکامات دیے تھے۔
اسی طرح شاید سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ جنگیں اب بھی جاری ہیں جن کو ختم کرنے کا وعدہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی کیا تھا، غزہ اور یوکرین میں جاری جنگیں ابھی تک لڑی جا رہی ہیں۔
غزہ میں دو سال سے جاری جنگ کو رکوانے اور اسرائیل و حماس کے درمیان معاہدے کے لیے ان کا دباؤ اس وقت عروج پر پہنچ رہا ہے جب نوبیل انعام کے اعلان میں چند روز باقی ہیں، تاہم ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ انہوں نے کمیٹی کو متاثر کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔