برطانیہ کے وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ اُن کا ملک انڈیا کے ساتھ ویزا معاہدے کی طرف نہیں بڑھے گا۔برطانوی حکومت اس وقت انڈیا کے ساتھ رواں سال کیے گئے تجارتی معاہدے کے بعد اقتصادی تعلقات گہرے کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق کیئر سٹارمر بدھ سے انڈیا کا دو روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں جس میں اُن کے ہمراہ مختلف کاروباروں سے منسلک ٹریڈ مشن بھی ہے جو تجارتی معاہدے کو آگے بڑھانے پر بات کرے گا۔برطانیہ اور انڈیا کے مابین تجارتی معاہدے پر مئی میں اتفاق کیا گیا تھا، جولائی میں اس پر دستخط کیے گئے جبکہ اگلے سال اس کا نفاذ ہونے والا ہے۔وزیراعظم سٹارمر نے کہا کہ ویزوں نے تجارتی معاہدے تک پہنچنے کی پچھلی کوششوں کو روک دیا تھا، اور یہ کہ ایک ایسے معاہدے تک پہنچنے کے بعد جس میں ویزوں کے کوئی مضمرات نہیں، وہ جمعرات کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات اور بات چیت میں اس معاملے پر دوبارہ غور نہیں کرنا چاہتے۔انڈیا کے سفر پر روانہ ہوتے ہوئے برطانوی وزیراعظم نے ویزوں کے بارے میں پوچھے جانے پر صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ منصوبے کا حصہ نہیں ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دورہ ’آزاد تجارتی معاہدے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہے جو ہم پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔‘برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’کاروبار اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ویزا مسئلہ نہیں ہے۔‘امیگریشن کے معاملے پر برطانوی میں عوامی تشویش کے درمیان کیئر سٹارمر اس پر زیادہ محتاط موقف اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اُن کی لیبر پارٹی عوامی جائزوں میں ’پاپولسٹ ریفارم یو کے‘ پارٹی سے پیچھے ہے۔
برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تجارتی معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز اگلے سال سے ہوگا۔ فائل فوٹو: روئٹرز
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے ’ایچ ون بی‘ ویزوں پر فیسوں میں اضافے کے بعد انڈیا سے ٹیک سیکٹر کے پیشہ ور افراد کو راغب کرنے کے لیے ویزوں کا معاملہ اس دورے میں بات چیت کا حصہ نہیں۔ حالانکہ ایک بڑے تناظر میں وزیراعظم سٹارمر کہہ چکے ہیں کہ وہ برطانیہ میں ’بہترین ٹیلنٹ‘ کو رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ ان ممالک سے آنے والوں کو ویزے جاری کرنا بند کر دیں گے جو غیرملکی مجرموں کو واپس نہیں لے جائیں گے یا لوگوں کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں، کیئر سٹارمر کا جواب تھا کہ یہ انڈیا کے ساتھ ایک ’نان ایشو‘ ہے کیونکہ اُن سے مجرموں کی واپسی کا معاہدہ ہے، لیکن یہ وہ معاملہ ہے جسے وہ زیادہ بڑے پیمانے پر دیکھنا چاہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ویزا اور واپسی کے معاہدوں کے درمیان کوئی ربط ہونا چاہیے۔‘