نئے ملازمین کے بجائے مصنوعی ذہانت کو ترجیح، ’جنریشن زی کے لیے مشکلات‘

image
برطانیہ کے سٹینڈرڈز انسٹیٹیوشن (بی ایس آئی) کے ایک حالیہ سروے میں کہا گیا ہے کہ دُنیا کے متعدد ملکوں میں ابتدائی نوعیت کی ملازمتوں میں کمپنی مالکان نئی بھرتیوں کے بجائے مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اخبار گارڈین کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی طرف دیکھنے والے نوجوانوں کو اب مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ سروے بتاتا ہے کہ کاروباری افراد اپنی کمپنیوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کاروبار چلانے والوں کی ترجیح بزنس کی اے آئی کے ذریعے آٹومیشن ہے نہ کہ نئی بھرتیوں سے آسامیاں پُر کرنے کے بعد اُن کی تربیت پر رقم خرچ کرنا۔

بی ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دس میں سے چار کاروباروں کے مالکان کہتے ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے ملازمین کی تعداد کو کم کرنے کے حق میں ہیں۔

اس سروے میں بی ایس آئی نے برطانیہ، امریکہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، چین اور جاپان میں 850 بزنس مالکان سے رائے لی ہے۔

سات ملکوں کے ان کاروباری افراد میں سے 31 فیصد نے کہا کہ وہ کسی نئے شخص کو ملازمت پر رکھنے سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ کیا مصنوعی ذہانت سے اس کا متبادل مل سکتا ہے۔ ہر پانچ میں سے دو کاروباری مالکان نے کہا کہ وہ اگلے پانچ برس میں اس کی توقع کر رہے ہیں۔

یہ اس بات کی علامت ہے کہ نئی نسل جسے جنریشن زی کہا جاتا ہے کو ملازمتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ایک ایسے وقت میں، جب لیبر مارکیٹ میں مندی ہے یا ملازمتیں کم ہو رہی ہیں ایک تہائی مالکان سمجھتے ہیں کہ انٹری لیول یا شروعاتی نوعیت کے کام دفاتر میں اب مصنوعی ذہانت کے ذریعے انجام دیے جا سکتے ہیں۔

بی ایس آئی کے چیف ایگزیکٹیو سوسان ٹیلر مارٹن نے کہا کہ ’اے آئی عالمی طور پر کاروباروں کے لیے ایک بڑی فائدے کی چیز ہے لیکن ہمیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ہوگی کہ یہ انسان ہی ہیں جو ترقی کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔‘

سروے کے مطابق برطانیہ کے کاروباری اداروں میں مصنوعی ذہانت کو تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ فوٹو: فری پک

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری تحقیق واضح کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور ایک پھلتی پھولتی افرادی قوت کو فعال کرنے کے درمیان تناؤ ہمارے دور کا واضح چیلنج ہے۔ پائیدار اور پیداواری روزگار کو یقینی بنانے کے لیے اے آئی ٹولز میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ طویل مدتی سوچ اور افرادی قوت کی سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔‘

سروے کے دوران 39 فیصد کاروباری مالکان نے کہا کہ شروعاتی نوعیت کے کاموں کی آسامیاں پہلے ہی کم کی جا چکی ہیں اور یہ کام اے آئی سے لیا جا رہا ہے۔

جبکہ نصف سے زیادہ جواب دہندگان نے کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمھتے ہیں کہ اے آئی کے استعمال میں آنے سے پہلے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ نصف سے زیادہ یعنی 53 فیصد نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کمپنیوں میں اے آئی کے نفاذ کے فوائد افرادی قوت کو پہنچنے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

سروے کے مطابق برطانیہ کے کاروباری اداروں میں مصنوعی ذہانت کو تیزی سے اپنایا جا رہا ہے، اور تین چوتھائی یعنی 76 فیصد نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ نئے ٹولز ان کے کاروبار کو اگلے 12 مہینوں میں ٹھوس فوائد دیں گے۔

بی ایس آئی نے سات ملکوں میں مختلف کاروباروں کے مالکان سے سروے کیا۔ فوٹو: فری پک

کاروباری افراد نے بتایا کہ وہ اپنی کمپنیوں میں اے آئی کو پیداوار بڑھانے اور معیار کو بہتر کرنے کے ساتھ لاگت کو کم کرنے میں استعمال کر رہے ہیں۔

بی ایس آئی کی جانب سے مختلف کمپنیوں کی سالانہ رپورٹس کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ ان میں ’آٹومیشن‘ کا لفظ ’صلاحیت بڑھانے‘ اور ’برقرار رکھنے‘ کے مقابلے میں سات مرتبہ زیادہ استعمال ہوا۔

ایک الگ سروے میں برطانیہ کی آدھی بالغ آبادی نے اے آئی کی وجہ سے ملازمتوں میں کمی کے حوالے سے اپنے خدشات ظاہر کیے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US