اسلام آباد: سیاسی مذہبی جماعت کے احتجاج کے معاملے پر سیاسی رابطوں اور پسِ پردہ کوششوں میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے موجودہ صورتحال کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب سے مؤثر رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ سے ٹیلیفون پر گفتگو کی، جس میں احتجاجی مظاہروں، عوامی مشکلات اور امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو تجویز دی کہ سیاسی مذہبی جماعت کے احتجاج کو بات چیت اور مفاہمت کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ تصادم کی فضا پیدا نہ ہو اور شہریوں کو مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی اپیل کے بعد حکومتی نمائندوں اور مذہبی جماعت کی قیادت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ ابتدائی مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوئے، اور فریقین نے صبر و تحمل، افہام و تفہیم اور قانون کی پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے، اور سیاسی ومذہبی جماعت کے رہنماؤں نے بھی مصالحتی رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے امید ظاہر کی گئی ہے کہ مظاہرین پرامن رہیں گے اور عوامی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔
باخبر ذرائع کے مطابق گزشتہ رات مذاکرات کے بعد سعد رضوی کے اہلِ خانہ کو رہا کر دیا گیا، جس کے بعد سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما اس وقت بھی مولانا فضل الرحمان اور ان کی ٹیم کے ساتھ لاہور میں خوشگوار ماحول میں بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا کردار حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان مصالحتی پل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے، جو موجودہ کشیدہ صورتحال کو پرامن سمت میں لے جانے اور سیاسی استحکام کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعت نے اقصیٰ مارچ منسوخ یا ملتوی کرنے کا عندیہ دے دیا؟
ذرائع کے مطابق، حالیہ دنوں میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ممکنہ خطرات سے متعلق انتباہ کے بعد مذہبی جماعت کی مرکزی قیادت نے مشاورت کا عمل شروع کیا، جس کے نتیجے میں اقصٰی مارچ ملتوی یا منسوخ کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قیادت کا موقف ہے کہ عوام کی سلامتی اور ملک کے امن و امان کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے گا، اس لیے کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کیا جائے گا جو حالات کو مزید کشیدہ کر سکتا ہو۔