کوئٹہ: عدالت عالیہ بلوچستان نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی معافی یا سزا میں کمی کے حق دار نہیں ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ دفعہ 21-ایف کے تحت دہشت گردی کے مجرموں کے لیے معافی، رعایت یا سزا میں کمی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
عدالت نے 2023 اور 2024 کے دوران دائر کی گئی تمام آئینی درخواستیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں نے آئین کے آرٹیکل 45 اور جیل قوانین کے تحت معافی کا حق مانگا تھا، تاہم انسدادِ دہشت گردی قانون عام قوانین پر فوقیت رکھتا ہے۔
عدالت کے مطابق 2001 میں دفعہ 21-ایف شامل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو معافی سے ہمیشہ کے لیے محروم رکھا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے مجرم علیحدہ قانونی زمرے میں آتے ہیں، لہٰذا انہیں مساوی سلوک کے آرٹیکل 25 کے تحت رعایت دینا آئینی طور پر درست نہیں۔
عدالت عالیہ نے محکمہ داخلہ اور جیل حکام کو حکم دیا کہ وہ تمام غیرقانونی معافیاں فوری طور پر واپس لیں اور تمام قیدیوں کو اپنی سزا کا کم از کم دو تہائی حصہ لازمی کاٹنے کو یقینی بنائیں۔
مزید برآں، عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات کو بی کلاس قیدیوں کی فہرست عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بعض قیدیوں کو من مانی، امتیازی اور غیرقانونی رعایتیں دی گئیں۔
فیصلے میں انکشاف کیا گیا کہ سونا خان نے 9 سال سزا کاٹی مگر 15 سال سے زائد رعایت حاصل کی، جبکہ امان اللہ نے 8 سال سزا کے بعد 9 سال کی غیرقانونی معافی پائی، جنہیں عدالت نے کالعدم قرار دیا۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ صدرِ پاکستان کے معافی کے اختیارات اسلامی اصولوں اور ریاستی پالیسی سے مشروط ہیں، اور سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو معافی دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
فیصلے میں آئندہ معافیوں میں قانونی تقاضوں کی مکمل پاسداری لازمی قرار دیتے ہوئے عدالت نے متعلقہ حکام کو فیصلے کی نقول فوری ارسال کرنے کا حکم دیا۔