چین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امریکی صدر کی جانب سے 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکیوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اختلافات کو دھمکیوں کے بجائے مذاکرات سے حل کیا جائے۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چینی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’چین کا مؤقف واضح ہے۔ ہم ٹیرف جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر مسلّط کی گئی تو ہم اس سے گھبرائیں گے بھی نہیں۔‘
چینی وزارت تجارت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’بار بار زیادہ ٹیرف کی دھمکیاں دینا چین سے تعلقات استوار کرنے کا درست طریقہ نہیں ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام فریقین کو اپنے تحفظات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
’اگر امریکہ اپنی روش پر قائم رہا تو چین بھی اپنے قانونی حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے بھرپور اور مؤثر اقدامات کرے گا۔‘صدر ٹرمپ نے دو دن قبل چین کی جانب سے نایاب معدنیات پر برآمدی پابندیاں لگانے کو ’جارحانہ رویہ‘ قرار دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ امریکہ چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بڑے پیمانے پر ٹیرف عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی کشمکش ایک بار پھر شدت اختیار کر رہی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات کے امکان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ نے کہا ہے کہ چین بہت زیادہ جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)
صدر ٹرمپ نے رواں سال امریکہ کے کئی تجارتی شراکت داروں سے درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ کیا ہے تاکہ ٹیرف میں نرمی کے بدلے تجارتی رعایت حاصل کی جا سکیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ چین بہت زیادہ جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور نایاب زمینی دھاتوں اور مقناطیسوں تک رسائی محدود کر کے دنیا کو قید میں رکھے ہوئے ہے۔امریکی صدر نے چین کی پالیسیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’چین میں بہت عجیب و غریب چیزیں ہو رہی ہیں، وہ روز بروز زیادہ دشمنی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی صدر شی جن پنگ سے ملاقات آئندہ دو ہفتوں میں جنوبی کوریا میں ہونے والے ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون (اے پیک) اجلاس کے دوران طے تھی لیکن اب انہیں اس ملاقات کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔’میں صدر شی سے ملنے والا تھا، لیکن اب اس کی کوئی وجہ نہیں رہی۔ میں نے ان سے فون پر بات کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔‘صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ اس وقت ایک ایسی پالیسی پر کام کر رہی ہے جس کے تحت چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر بڑے پیمانے پر ٹیرف لگائے جائیں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بار بار زیادہ ٹیرف کی دھمکیاں دینا چین سے تعلقات استوار کرنے کا درست طریقہ نہیں ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدامات چین کی جانب سے تجارتی طور پر اٹھائے جانے والے غیر منصفانہ اقدامات کا جواب ہوں گے۔‘
ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ ’چین نے دنیا کے کئی ممالک کو خطوط ارسال کیے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ نایاب معدنیات سے متعلق پیداوار کے ہر ہر جزو پر برآمدی کنٹرول نافذ کیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ان چیزوں پر بھی جن کی تیاری چین میں نہیں ہوتی۔‘صدر ٹرمپ کے ان بیانات کے بعد امریکی مالیاتی منڈیوں میں فوری منفی ردِعمل دیکھا گیا ہے۔ وال سٹریٹ میں بھی مندی دیکھنے کو ملی کیونکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی ایک بار پھر شدت اختیار کر سکتی ہے۔اس ملاقات کو صدر ٹرمپ خود بھی اہمیت کا حامل قرار دے چکے ہیں، یہ ملاقات ان کے دوبارہ صدر بننے کے بعد صدر شی جن پنگ سے پہلی براہ راست ملاقات ہوتی۔