ماضی کے حریف، آج کے دوست: انڈیا اور افغان طالبان تعلقات میں فروغ کے ذریعے کن سٹریٹجک مفادات کا حصول چاہتے ہیں؟

طالبان کے وزیر خارجہ کا انڈیا کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی اور اہم تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جس سے نئی دہلی کی اپنے سٹریٹجک مفادات کی ترجیحات کا بخوبی اظہار ہو رہا ہے۔دوسری جانب انڈیا اور افغانستان کی بڑھتی قربتیں، جو چار سال پہلے تک ناقابل تصور تھیں، طالبان کے روایتی حامی پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہیں

ماضی کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے برعکس بظاہر انڈیا میں مودی حکومت اور افغانستان میں اسلام پسند افغان طالبان حکومت کے مابین بڑھتے تعلقات ایک متضاد سی بات معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ان دونوں ممالک میں بڑھتی قربت اور تعاون ان ملکوں کے رہنماؤں کی عملیت پسندی اور حقیقت سے قریب تر ہونے کا اظہار بھی ہے۔

حال ہی میں سامنے آنے والے بیانات سے معلوم پڑتا ہے کہ دونوں ممالک سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کا لگ بھگ ایک ہفتے پر محیط طویل دورہ انڈیا اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ انڈیا افغانستان کے تئیں اپنی پالیسی واضح انداز میں بدل رہا ہے۔

نو اکتوبر سے 14 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس سرکاری دورے میں امیر خان متقی کا انڈیا میں پُرتپاک استقبال کیا گیا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیدار کا انڈیا کا یہ دورہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے 10 روز بعد سامنے آیا ہے۔ ’ریجنل ڈائیلاگ‘ کے عنوان سے ہونے والے اس اہم دو روزہ اجلاس کا انعقاد اسلام آباد میں کیا گیا تھا اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبینہ طور پر طالبان مخالف افغان شخصیات نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں سابق غنی حکومت کے چند رہنما اور عہدیدار بھی شریک تھے۔

اور یہ سب معاملات اور دورے اس وقت وقوع پذیر ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان سرحدی جھڑپیں جاری ہے جبکہ ابھی گذشتہ مئی میں ہی پاکستان اور انڈیا کے درمیان بھی فضائی جھڑپیں ہوئی تھیں۔

ایک نئی شروعات

امیر خان متقی کا انڈیا میں پُرتپاک استقبال کیا گیا تھا
Getty Images
امیر خان متقی کا انڈیا میں پُرتپاک استقبال کیا گیا تھا

طالبان کے وزیر خارجہ کا انڈیا کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی اور اہم تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جس سے نئی دہلی کی اپنے سٹریٹجک مفادات کی ترجیحات کا بخوبی اظہار ہو رہا ہے۔

دوسری جانب انڈیا اور افغانستان کی بڑھتی قربتیں، جو چار سال پہلے تک ناقابل تصور تھیں، طالبان کے روایتی حامی پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھی جا رہی ہیں جس نے کابل پر طالبان کے قبضے کا خیرمقدم کیا تھا۔

انڈیا اور افغان طالبان کے درمیان یہ قربتیں ان دونوں ممالک کے درمیان دو دہائیوں پر محیط تلخ تعلقات کے بعد سامنے آ رہی ہیں۔

سنہ 1994 میں تحریک طالبان کے قیام کے بعد سے انڈیا اسے ایک پاکستانی پراکسی گروپ کے طور پر دیکھتا رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کی خاطر افغانستان میں انڈین اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔

اسی بنیاد پر انڈیا نے روس اور ایران کے ساتھ مل کر طالبان مخالف افغان گروپوں کو عسکری، سیاسی اور مالی مدد فراہم کی یہاں تک کہ امریکہ نے سنہ2001 میں افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔

انڈیا تب سے لے کر اگلے بیس سالوں تک نئی امریکی حمایت یافتہ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ افغان حکومت کا بڑا حامی تھا۔ مگر اِن برسوں میں انڈیا اور افغان طالبان ایک دوسرے کے مخالف رہے۔

دوسری جانب اسی دوران زیادہ تر عسکریت پسندوں کی توجہ افغانستان کی جانب مبذول ہو گئی تھی اور یوں افغانستانانڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لڑنے والے عسکریت پسند گروہوں سمیت دیگر گروپوں کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔

لیکن فروری 2020 میں جب قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے نے سنہ 2021 کے وسط تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کا ٹائم ٹیبل طے کیا تو انڈین پالیسی سازوں میں انتشار پھیل گیا۔

اور جب طالبان نے 15 اگست 2021 کو کابل پر قبضہ کیا تو انڈیا نے باضابطہ طور پر افغان دارالحکومت میں اپنے سفارتخانے سمیتقندھار، ہرات، مزار شریف اور جلال آباد میں موجود اپنے چار قونصل خانوں کو بند کر دیا۔

انڈیا کے اس عمل سے نہ صرف افغان طلبا، مریض، تاجر، اور سابق افغان حکومت کے عہدیداروں اور سیاست دانوں کو ویزوں کا اجرا رک گیا بلکہ مبینہ طور پر انڈین حکومت کی جانب سے اُن ہزاروں ویزوں کو بھی سکیورٹی وجوہات کی بنیا پر منسوخ کر دیا جو اس سے قبل جاری کیے جا چکے تھے۔

انڈیا کے اس اقدام کو کئی سابق افغان حکام اور سیاست دانوں نے ’دھوکہ دہی‘ قرار دیا تھا۔

مگر اس سب کے باوجود افغانستان کی نئی سیاسی اور سلامتی کی صورتحال کے پیش نظر انڈیا اور طالبان دونوں ہی تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند تھے کیونکہ اسی میں دونوں کو جیت نظر آ رہی تھی۔

سابقہ ​​حریف، موجودہ دوست

طالبان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی تقریباً تمام علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کی راہ استوار کر چکے تھے اور انڈیا کے ساتھ بھی وہ اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتے تھے۔

طالبان نے پریس ریلیزز کے علاوہ اپنے سیاسی دفتر سے بھیجے گئے ذاتی پیغامات کے ذریعے انڈیا کو یقین دلایا کہ ان کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور ان کا سیاسی ایجنڈا کسی تیسرے ملک کے مطالبات اور ترجیحات سے منسلک نہیں ہے۔ بظاہر اس میں اُن کا اشارہ پاکستان کی جانب تھا۔

جون 2012 میں جاری ایک بیان میں طالبان نے افغانستان میں فوجی کردار کے امریکی مطالبات کو مسترد کرنے پر انڈیا کو سراہنے کا واضح اشارہ کیا۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب امریکہ 2014 کے آخر تک افغانستان میں امریکی اور نیٹوافواج کی موجودگی اور کردار کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور انڈیا سے افغان سکیورٹی کے معاملات میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا خواہاں تھا۔

اسی وجہ سے طالبان نے اپنے بیان میں انڈیا کو خطے کا ایک اہم ملک قرار دیا اور کہا کہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیےانڈیا کا خود کو کسی تباہی میں ملوث کرنا غیر منطقی ہے۔

سٹریٹجک تبدیلی

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ان پیغامات اور رابطوں کے نتیجے میں انڈیا نے بتدریج طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں۔

یہ انڈیا کی جانب سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک جرات مندانہ اور بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ایک سال کے اندر انڈیا نے افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی کو دوبارہ فعال کر دیا۔

جون 2022 کے اوائل میں انڈیا کی وزارت خارجہ کے ایک وفد نے جے پی سنگھ کی قیادت میں کابل کا دورہ کیا۔

یہ انڈیا اور طالبان حکومتوں کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات تھی جسے طالبان کی وزارت خارجہ نے ’دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک اچھی شروعات‘ قرار دیا۔

اس ماہ کے آخر میں انڈیا نے ایک ’تکنیکی ٹیم‘ کابل بھیجنے کا اعلان کیا جو انڈین سفارتخانے کے ذریعے افغانستان میں خوراک اور ادویات سمیت اپنی انسانی امداد کی تقسیم کا انتظام کرے گی۔

اس کے بعد انڈیا اور طالبان کے عہدیداروں اور افغانستان کے اندر اور باہر سفارتکاروں کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی۔

اس میں جنوری 2025 میں دبئی میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور انڈین نائب وزیر خارجہ وکرم مصری کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی شامل تھی۔

چار ماہ بعد مئی میں انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ٹیلیفون پر بات کی۔

یہ اس وقت تک دونوں فریقوں کے درمیان پہلا اعلیٰ ترین سطح کا رابطہ تھا۔

اسی وقت انڈیا نے طالبان کے کچھ اہم ارکان، سرکاری اہلکاروں، اور ان کے خاندان کے افراد کو سرکاری ملاقاتوں، تربیت یا طبی علاج کے لیے انڈیا جانے کے لیے ویزوں کا اجرا شروع کر دیا۔

اگرچہ طالبان کے ارکان کے ایسے دوروں کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا تھا لیکن اس عمل سے فریقوں میں باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا۔

ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ آخر کار انڈیا نے طالبان حکومت کی جانب سے انڈیا میں اپنے سفارت کاروں کی تعیناتی کی درخواست منظور کر لی۔

نومبر 2024 میں انڈیا نے ممبئی میں افغان قونصل خانہ طالبان حکومت کے مقرر کردہ ایک سفارت کار کے حوالے کر دیا اور چند ماہ بعد اس نے حیدر آباد میں افغان قونصل خانے کو ان کے مقرر کردہ ایک اور شخص کے حوالے کر دیا۔

ان کے دوطرفہ سفارتی تعلقات کی سطح اس ہفتے مزید بڑھی جب امیر متقی کے دہلی کے دورے کے آغاز پر، انڈین وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ کابل میں اپنے ’تکنیکی مشن‘ کو سفارتخانے کی سطح پر اپ گریڈ کریں گے۔

اگرچہ انڈیا نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تاہم اس نے دہلی میں افغان سفارتخانے میں طالبان حکومت کی طرف سے تعینات سفارتکاروں کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

طالبان حکومت کی پالیسیاں، امیدیں اور مطالبات

طالبان حکومت
Getty Images

طالبان حکومت کے لیے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا کئی پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے۔ انڈیا ایک بڑی علاقائی طاقت اور افغانستان کا ماضی میں روایتی اتحادی رہا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات طالبان حکومت کی اندرونِ ملک اور بین الاقوامی سطح پر پوزیشن اور قانونی حیثیت کو مضبوط کرتے ہیں۔

طالبان کی حکومت کو امید ہے کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات سے اس کی قومی ساکھ مضبوط ہو گی اور اسے کسی دوسرے ملک کے زیر اثر ہونے کے بجائے ایک آزاد کھلاڑی کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے رویے کو پاکستانی اثر و رسوخ کے نتیجے سے تعبیر کیا جائے گا، خاص طور پر ان افغان شہریوں کی طرف سے جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

طالبان حکومت سفارتی تعلقات کو تسلیم کرنے اور وسعت دینے کی خواہاں ہے اور انڈیا جیسے ملک کے ساتھ تعلقات قائم کر کے وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مغربی ممالک کے دباؤ اور پابندیوں کے باوجود وہ تنہا نہیں ہیں اور ان کے مضبوط دوست ہیں۔

انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر کے طالبان حکومت علاقائی حریفوں کو بھی دکھانا چاہتی ہے کہ اس کے پاس متبادل موجود ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ غربت میں ڈوبے ہوئے ملک افغانستان کے لیے خطے اور دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انڈیا اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ تاریخی طور پر افغانستان کے خشک اور تازہ پھلوں، سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے شامل رہا ہے۔

افغان حکومت کے مختلف حکام دہائیوں سے شکوہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان افغانستان یا انڈیا کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں کراچی کی بندرگاہ اور واہگہ کی زمینی سرحد میں رکاوٹیں ڈالتا ہے جو افغانستان کے لیے انڈیا کے ساتھ تجارت کے لیے سب سے مختصر اور سستے راستے ہیں

اس لیے انڈیا کے ساتھ تجارت افغانستان کی معاشی ضرورت ہے۔

چونکہ امریکہ اور نیٹو کی فوجی موجودگی کے دوران انڈیا خطے میں افغانستان کا سب سے بڑا ڈونر ملک تھا اس لیے طالبان کی حکومت چاہتی ہے کہ انڈیا اپنے پرانے ترقیاتی منصوبے مکمل کرے اور ساتھ ہی افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے نئے منصوبے شروع کرے۔ افغانستان انڈیا کی جانب سے کان کنی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا بھی خواہاں ہے۔

طالبان حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ انڈیا جلد ہی افغان شہریوں، خاص طور پر تاجروں، طلبا اور مریضوں کو ویزے کا اجرا دوبارہ شروع کرے۔

انڈیا کے ماضی کو دیکھتے ہوئے انھیں یہ امید بھی ہے کہ انڈیا ان کے شہریوں کو کمپیوٹر کی مہارت اور دیگر پیشوں کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ نظم و نسق، انتظامیہ اور سکیورٹی کے شعبوں میں بھی تعاون کرے گا۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک دو طرفہ تجارت کے لیے ایک باقاعدہ فضائی راہداری کے قیام کے لیے بھی کام کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایرانی سمندری بندرگاہوں جیسا کہ چابہار اور بندر عباس کو انڈیا، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔

انڈیا اور پاکستان طویل عرصے سے افغانستان میں ایک دوسرے کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے اور اس کے سیاسی معاملات پر غلبہ حاصل کرنے یا اثر انداز ہونے کی مسابقت میں مصروف رہے ہیں۔

اگرچہ 1994 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات بہت بہتر تھے تاہم دوسرے دورِ حکومت کے آغاز کے چند ہی ماہ بعد یہ تعلقات خراب ہو گئے۔

اب دونوں کے درمیان کشیدگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ستمبر 2025 میں پاکستان کے کئی اعلیٰ عہدیدداروں نے افغانستان مخالف بیانات دیے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے تو افغانستان کو ’دشمن ملک‘ قرار دیا جبکہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران دونوں ممالک میں باقاعدہ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

پاکستان کا الزام ہے کہ طالبان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے اور وہاں سے حملے کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

پاکستان یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ انڈیا نہ صرف افغان سرزمین کے ذریعے پاکستانی طالبان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کی بھی حمایت کر رہا ہے۔

تاہم طالبان حکومت اور انڈیا دونوں نے ان الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔

طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان نے افغانستان میں کئی فضائی حملے کیے ہیں اور دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں پاکستانی طالبان کے جنگجو اور ان کے ٹھکانوں کونشانہ بنایا گیا۔

تاہم طالبان حکومت کے عہدیداران نے ردِعمل میں بارہا یہ مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کے ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہری ہلاک ہوئے۔

اسی دوران طالبان حکومت نے پاکستان کے بعض عناصر پر الزام لگایا کہ وہ افغانستان اور طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور اُن کے مخالفین کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جس تیزی سے طالبان حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے، اُسی رفتار سے خلاف توقع انڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط ہوتے گئے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نہ اسلام آباد، نہ دہلی اور نہ ہی خود طالبان یہ اندازہ لگا سکتے تھے کہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد طالبان حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اس قدر بگڑ جائیں گے اور دوسری جانب انڈیا نئی طالبان حکومت کے ساتھ اس قدر وسیع اور کثیر الجہتی تعلقات قائم کر لے گا۔

علاقائی مقابلہ اور قومی مفادات

 افغانستان اور انڈیا کے حکام
Getty Images

انڈیا کو سب سے زیادہ خدشات سکیورٹی سے متعلق ہیں خصوصاً داعش اور القاعدہ کے حوالے سے، ساتھ ہی ان علاقائی شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی انڈیا کو تشویش ہے جو اسے نشانہ بناتے ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت نے انڈیا کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو اس کے خلاف حملوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

دونوں فریق اب بھی سلامتی اور خفیہ معلومات کے تبادلے کے امور پر تعاون کر رہے ہیں کیونکہ نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) طالبان کے لیے بھی ایک دشمن گروہ ہے۔

یہ تعاون انڈیا کے استحکام اور خوشحالی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ انڈیا کو ایک طرف اپنے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں سے خطرہ لاحق ہے اور دوسری طرف القاعدہ اور داعش جیسے علاقائی گروہوں کے ممکنہ حملوں کا خدشہ بھی موجود ہے۔

اسی دوران انڈیا طالبان حکومت کے ساتھ اپنے نئے قائم ہونے والے تعلقات کو افغانستان کے ساتھ اپنے تاریخی اور روایتی شراکت داری کے تناظر میں پیش کر رہا ہے۔

یہ انڈیا کے اُس ’اصولی مؤقف‘ کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ کابل میں جو بھی حکومت برسرِ اقتدار ہو، اڈیا کو اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہییں۔

تاہم سب سے بڑھ کر طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات انڈیا کے لیے قومی مفاد کا معاملہ ہیں۔

طالبان اس وقت افغانستان پر حکمرانی کر رہے ہیں جہاں کی سرزمین پر ان کا کنٹرول ہے اور وہ حکومتی امور چلا رہے ہیں۔

لہٰذا انڈیا کو ان کے ساتھ سلامتی، عوامی رابطوں، سرمایہ کاری و تجارت، اور علاقائی روابط جیسے مختلف معاملات میں تعاون کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب انڈیا ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر خطے اور اس سے باہر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔

چونکہ انڈیا کے علاقائی حریف یعنی پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ دیگر طاقتیں جیسے روس اور ایران بھی افغانستان میں اپنے اثرات بڑھانے میں مصروف ہیں اس لیے نئی دہلی پیچھے رہ جانا نہیں چاہتا۔

تاہم ماضی کے واقعات پر تحفظات، اندرونی سیاسی عوامل اور ممکنہ بیرونی اثرات کے باعث افغانستان کی طالبان حکومت اور انڈیا کے تعلقات فی الحال محتاط اور حکمتِ عملی پر مبنی ہیں۔

اسی وجہ سے اپنے تعلقات میں بہتری کے باوجود دونوں فریق انتہائی احتیاط کے ساتھ قدم بڑھا رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US