سینیئر پولیس افسر کی مبینہ خودکشی کے بعد اے ایس آئی کا ویڈیو پیغام، الزامات اور گولی مار کر اپنی جان لینے کا معمہ

انڈین دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ میں آئی جی کی پوسٹ پر تعینات سینیئر پولیس افسر وائی پورن کمار کا خود کو مبینہ طور پر گولی مار کر جان لے لینے کے معاملے میں گذشتہ روز اس وقت نیا موڑ آ گیا جب ایک داروغہ نے متوفی پر الزام لگاتے ہوئے خود کو ہلاک کر لیا۔

انڈین دارالحکومت دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ میں انسپیکٹر جنرل (آئی جی) کی پوسٹ پر تعینات سینیئر پولیس افسر وائی پورن کمار کا خود کو مبینہ طور پر گولی مار کر جان لے لینے کے معاملے میں گذشتہ روز اُس وقت نیا موڑ آ گیا جب ایک پولیس کانسٹیبل نے وائی پورن پر الزام عائد کرتے ہوئے خود کو ہلاک کر لیا۔

وائی پورن سنگھ کی مبینہ ’خودکشی‘ کا معاملہ جہاں پولیس جیسے محکمے میں ذات پات کی بنیاد پر تعصب کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے وہیں اسسٹنٹ سب انسپیکٹر (اے ایس آئی) سندیپ کمار کی موت پولیس کے محکمے میں بدعنوانی کو اجاگر کرتی ہے۔

پورن سنگھ کی موت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی کافی باتیں ہو رہی ہیں اور انڈیا میں دلتوں یعنی پسماندہ ذات والوں کے ساتھ کیے جانے والے ’بُرے سلوک‘ کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔

انڈین خبررساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق اے ایس آئی سندیپ کمار نے اپنے ویڈیو پیغام میں وائی پورن کمار پر سنگین الزامات عائد کرنے کے بعد خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا۔

اے این آئی کے مطابق سندیپ کمار، جو وائی پورن کمار کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کر رہے تھے، نے ایک خودکشی نوٹ میں کہا کہ وہ ’سچائی‘ کے لیے اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔

کمار نے الزام لگایا ہے کہ وائی پورن کمار ایک ’بدعنوان پولیس افسر‘ تھے اور انھوں نے اس وقت خودکشی کر لی جب انھیں احساس ہو گیا کہ اُن کی مبینہ بدعنوانی بے نقاب ہونے والی ہے۔

روہتک کے سپرنٹنڈٹ آف پولیس سریندر سنگھ بھوریا نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا: ’وہ ہمارے محکمہ پولیس کے ایک محنتی اے ایس آئی تھے۔ وہ بہت ایماندار اور محنتی تھے۔ ان کی لاش ملنے کے بعد تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘

ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ اپنے آخری ویڈیو پیغام میں اے ایس آئی سندیپ نے روہتک کے سابق ایس پی نریندر بجارنیا کے لیے حمایت کا اظہار کیا جن کا آئی پی ایس پورن کمار کی سنسنی خیز موت کے تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ سندیپ نے ویڈیو میں بجارنیا کو ایماندار افسر بتایا ہے۔

خیال رہے کہ سندیپ کی موت کی اطلاع کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی جانب سے پورن کمار کے اہلخانہ سے ملنے کے چند گھنٹے بعد ہوئی۔

راہل گاندھی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آئی پی ایس وائی پورن کمار کی موت ایک خاندان کی نہیں بلکہ تمام دلتوں کی عزت سے متعلق ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی سے اس معاملے میں فوری کارروائی کرنے کی اپیل کی۔

صحافی آکاش دیپ تھنڈ نے سندیپ کے کزن شیش پال لاتھر کا بیان شیئر کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ان کے بھائی بہت ایماندار تھے، اُن پر قرض بھی تھا اور یہ کہ انھوں نے خود کشی نہیں کی بلکہ انھیں اپنی جان لینے پر مجبور کیا گیا۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق اے ایس آئی سندیپ کمار کی اہلیہ نے پولیس کو متوفی کی لاش دینے سے منع کر دیا اور وہ میت کو ان کے آبائی گاؤں لے گئیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت تک وہ میت کی آخری رسومات ادا نہیں کریں گی جب تک کہ پولیس افسر پورن کمار کی بیوی آئی اے ایس افسر امنیت پورن کمار گرفتار نہیں ہوتیں۔

رپورٹ کے مطابق اے ایس آئی سندیپ کمار کی لاش منگل کو روہتک-پانی پت روڈ پر ایک ٹیوب ویل کے پاس ملی۔ پولیس نے تین صفحات کا ایک نوٹ اور ایک ویڈیو پیغام برآمد کیا جس میں سندیپ کمار نے متوفی آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار پر بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کا الزام لگایا۔ اپنے نوٹ میں، سندیپ نے دعویٰ کیا کہ انھیں جاری تحقیقات کے سلسلے میں گرفتاری کا خدشہ ہے اور کہا کہ وہ 'غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے' کے لیے اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔

اے این آئی کے مطابق متوفی اے ایس آئی سندیپ کے بھائی جسبیر نے کہا کہ ان کے بھائی نے 'اپنے خودکشی نوٹ اور اپنے بیان میں جس کا ذکر کیا ہے، اس کی بنیاد پر، ہم چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر درج کی جائے اور کارروائی کی جائے۔ ہم منصفانہ تحقیقات اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔'

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں اموات میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ دونوں کے سر میں گولی لگنے سے موت ہوئی ہے، دونوں نے اپنا 'فائنل نوٹ' چھوڑا ہے۔ دونوں کی موت کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک ہفتہ پہلے منگل کو مرنے والے افسر پورن کمار نے ہریانہ ڈی جی پی شتروجیت سنگھ کپور اور چندی گڑھ ایس پی نریندر بجارنیا کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ گذشتہ روز منگل کو مرنے والے نے مذکورہ دونوں پولیس افسروں کے حق میں بات کہی ہے اور متوفی پورن کمار کو بدعنوان ٹھہرایا ہے۔

پورن کمار کی 'خودکشی' کا معاملہ اس قدر طول پکڑنے لگا تھا کہ حکومت کو ہریانہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) شتروجیت سنگھ کپور کو چھٹی پر بھیجنا پڑا اور اس سے قبل روہتک کے ایس پی نریندر بِجارنیا کا تبادلہ کر دیا گیا۔

کانگریس سمیت حزب اختلاف کی پارٹیوں نے اس واقعے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے آج ان کے گھر پہنچ کر سوگواروں سے ملاقات کی ہے اور متوفی کے ’آخری نوٹ‘ میںانھیں ہراساں کرنے والے جن افراد کے نام ہیں ان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ متوفی پورن کمار نے آٹھ صفحات پر مشتمل اپنا ’آخری پیغام‘ چھوڑا ہے جس میں انھوں نے ہریانہ ڈی جی پی شتروجیت سنگھ کپور اور ایس پی نریندر بِجارنیا کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے اس میں یہ بھی کہا ہے کہ انھیں ذات کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا اور ہراساں کیا گیا۔

افسر کے اہل خانہ نے پوسٹ مارٹم اور آخری رسومات کے لیے رضامندی دینے سے انکار کر دیا ہے جب تک کہ ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی جاتی اور ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ایف آئی آر درج ہونے کے ایک دن بعد پورن کمار کی اہلیہ نے جمعے کو پولیس کو خط لکھا اور ایف آئی آر میں درج 'نامکمل معلومات' پر سوال اٹھایا۔

اپنی شکایت میں انھوں نے تمام ملزمان کے نام درست درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس معاملے میں ہریانہ کے ڈی جی پی شتروجیت سنگھ کپور اور روہتک کے ایس پی نریندر بجارنیا کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ کیس کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

اس کمیٹی کی سربراہی چندی گڑھ کے آئی جی پولیس پُشپندر کمار کر رہے ہیں۔

وائی پورن کمار کی لاش گذشتہ منگل یعنی سات اکتوبر کو چندی گڑھ کے سیکٹر 11 میں ان کی رہائش گاہ سے ملی تھی۔ پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خودکشی کا معاملہ ہے جس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

وائی پورن کمار کی بیوی امنیت پی کمار خود ایک سینیئر آئی اے ایس افسر ہیں۔

امنیت پی کمار نے چندی گڑھ پولیس کے ایس ایس پی کنوردیپ کور کو ایک خط لکھا ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ ایف آئی آر میں شامل 'ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے ہلکے سیکشنز' میں ترمیم کی جائے۔

بی بی سی کے پاس شکایت کی کاپی موجود ہے۔

بیوی کی شکایت میں کیا ہے؟

ان کی شکایت کے بعد چندی گڑھ پولیس نے جمعرات کی شام کو خودکشی کے لیے اکسانے اور ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

ایف آئی آر متوفی پولیس افسر کے چھوڑے گئے 'آخری نوٹ' کی بنیاد پر درج کی گئی ہے۔

امنیت پی کمار نے بدھ کو چندی گڑھ پولیس کے پاس شکایت درج کرائی، جس میں ہریانہ پولیس کے سینیئر افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ہم نے اس بابت سابق ایم پی اور آئی آر ایس افسر ڈاکٹر ادت راج سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ ذات پات پر مبنی تعصبات کا ہے۔

انھوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ایسا نہیں کہ یہ دلتوں کی ہراسانی کا کوئی پہلا معاملہ ہے لیکن بی جے پی کے راج میں اس میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ ذات پات کے منووادی نظریے پر یقین رکھتی ہے۔'

انھوں نے کہا کہ مرنے والے افسر کے 'آخری نوٹ' میں یہ واضح ہے کہ انھیں ذات کی بنیاد پر ہراساں کیا گیا، ان کے ساتھ گھر کے الاٹمنٹ میں تعصب برتا گیا۔ ان کے والد کی وفات کے وقت انھیں چھٹی نہیں دی گئی۔

انھوں نے کہا کہ 'اتنی وضاحت کے باوجود اب تک نامزد کیے گیَ کسی بھی شخص کی گرفتاری نہیں ہوئی اور کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔'

وائی پورن کمار کون تھے؟

وائی پورن کمار اصل میں وسطی ریاست آندھرا پردیش سے تھے اور انجینئرنگ کی ڈگری رکھتے تھے۔

وہ ہریانہ کیڈر کے 2001 بیچ کے آئی پی ایس افسر تھے۔ اپنے کریئر کے دوران انھوں نے امبالا اور کروکشیتر میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انھوں نے امبالہ اور روہتک رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

خبررساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق 52 سالہ پورن کمار مرنے سے قبل ہریانہ کے روہتک میں پولیس ٹریننگ سینٹر (پی ٹی سی)، سوناریا میں انسپکٹر جنرل آف پولیس کے طور پر تعینات تھے۔

ان کی اہلیہ ہریانہ حکومت میں آئی اے ایس آفیسر ہیں اور محکمہ خارجہ کو تعاون کرنے والے شعبے میں کمشنر اور سکریٹری کے طور پر کام کرتی ہیں۔

واقعہ کے وقت وہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی کے ساتھ جاپان کے دورے پر جانے والے وفد کا حصہ تھیں۔

ہریانہ حکومت اس معاملے کو لے کر تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی نے جاپان کے دورے سے واپسی کے بعد جمعرات کو چندی گڑھ میں وائی پورن کمار کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔

بی بی سی نے ہریانہ کے ڈی جی پی سے ان کی کہانی کا ورژن حاصل کرنے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔

رابطہ کرنے پر پولیس کے ترجمان نے کہا کہ جب ڈی جی پی اپنا ورژن پیش کریں گے تو معلومات شیئر کی جائیں گی۔

چندی گڑھ پولیس کا جواب

چندی گڑھ پولیس نے کہا: 'سیکٹر 11 پولیس سٹیشن میں ایک آئی پی ایس افسر کی خودکشی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔'

چندی گڑھ پولیس کے جاری کردہ پریس نوٹ کے مطابق گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی جانچ کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ جس کمرے میں یہ واقعہ پیش آیا اسے سیل کر دیا گیا ہے۔ سی ایف ایس ایل ٹیم نے مبینہ خودکشی نوٹ کے ساتھ گھر سے کچھ الیکٹرانک آلات بھی ضبط کیے ہیں۔

انڈیا کے معروف سیفولوجسٹ اور سیاست داں یوگیندر یادو نے ان کی 'خودکشی' کے حوالے سے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وہ متوفی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور یہ کہ ان کی موت نے انھیں ایک بار پھر یہ احساس دلایا ہے کہ 'ذات پات ہمارا ماضی نہیں ہے۔ یہ ہماری موجودہ زندگی کی زندہ حقیقت ہے۔ اور اس کے ہمارے مستقبل کا حصہ رہنے کا بھی خطرہ ہے۔'

انھوں نے مزید لکھا کہ 'یہ دیہی یا روایتی حصوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کے جدید طبقوں میں ذات پات نئے ماسک پہنے ہوئے ہے۔ شاذ و نادر ہی ذات پات پر مبنی جبر اور ناانصافی خود کو اعلانیہ بیان کرتی ہے۔ یہ تہوں میں لپیٹ کر آتی ہے جسے کرید کر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔'

انھوں نے کہا کہ یہ چیزیں پچھلے ہفتے رونما ہونے والے تین واقعات کے ساتھ ان کے سامنے آئیں۔ رائے بریلی میں ہریوم والمیکی کی ہلاکت، چندی گڑھ میں آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار کی خودکشی اور کمرہ عدالت کے اندر چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی پر جوتا پھینکنے کی کوشش۔

سوشل میڈیا پر تنقید

سابق سول سروینٹ ڈاکٹر آر ایس پروین کمار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک پر ایک تفصیلی نوٹ لکھا ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ 'یہ واقعہ ایک سنگین لیکن طاقتور یاددہانی ہے کہ کس طرح آئینی تحفظ کے باوجود اس ملک میں مظلوم برادریوں کے افسران کی زندگی کے ہر پہلو اور کریئر میں ذات پات کی تفریق کارفرما ہے۔‘

'امتیازی سلوک ایک ناگزیر حقیقت بن چکا ہے چاہے کوئی افسر کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو۔ میں یونائٹڈ اے پی کیڈر میں ایسے بہت سے معاملات سے واقف ہوں جہاں مظلوم برادریوں کے افسران کو ان کے شاندار ٹریک ریکارڈ کے باوجود انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ انھیں ہمیشہ خوف اور ذلت میں رکھا جاتا ہے۔ کھلی عدالت میں معزز چیف جسٹس بی آر گوائی پر حالیہ حملہ کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔'

دی دلت وائس نے شکایت کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا: 'ہریانہ کے آئی پی ایس افسر پورن کمار والمیکی کے انگریزی میں تحریر کردہ 8 صفحات پر مشتمل نوٹ میں 30-35 آئی پی ایس اور کچھ آئی اے ایس افسران کے نام ہیں۔ انھوں نے ذات پات کے تعصب، غیر منصفانہ پوسٹنگ، اے سی آر کی بے قاعدگیوں، رہائش سے انکار اور سینئر افسران کی طرف سے ہراساں کیے جانے کو اپنی پریشانی کی وجوہات کے طور پر ذکر کیا ہے۔'

حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے سوگواروں سے ان کے گھر جا کر ملاقات کی۔ اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کانگریس پارٹی نے ٹویٹ کیا: 'ہریانہ کے آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار کو ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا کرنے کے بعد اپنی جان لینے پر مجبور کیا گیا۔

'یہ المناک واقعہ ہماری قوم اور معاشرے پر ایک دھبہ ہے۔ یہ ایک سنگین یاد دہانی کہ پسماندہ کمیونٹیز آج کے انڈیا میں امید کھو رہی ہیں۔ نفرت اور رجعت پسندی پر مبنی بی جے پی-آر ایس ایس کے منوادی نظریے نے سماج میں اس حد تک زہر گھول دیا ہے کہ انسانیت اس سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔'

رکن پارلیمان اور مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے لکھا: 'ہریانہ کے آئی پی ایس افسر وائی پورن کمار نے ہراساں کیے جانے اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی وجہ سے خودکشی کر لی۔ انھوں نے اپنے 'لاسٹ نوٹ' میں اپنے بہت سے سینیئرز کا نام لیا۔ بدقسمتی سے یہ اس کے شواہد ہیں کہ دلتوں کو ترقی نہیں کرنے دی جاتی۔ چاہے وہ آئی پی ایس آفیسر کیوں نہ بن جائیں۔'

انھوں نے مزید لکھا کہ 'ملزمان کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔ زبانی جمع خرچ سے کچھ ہونے والا نہیں۔'

بہت سے صارفین نے لکھا ہے کہ پورن کمار محکمے میں جاری گڑبڑیوں کی اپنے سینیئر کی نشاندہی کرتے رہے لیکن کسی نے ان کی شکایتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا اور مجبور ہو کر انھیں انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔

اے ایس آئی سندیپ کمار لاتھر کی مبینہ خودکشی کے بعد بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اب یہ لکھ رہے ہیں کہ 'ایس سی/ایس ٹی' کے قوانین کا بہت زیادہ غلط استعمال کیا گيا ہے۔ اس معاملے میں غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US