مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان کا پہلا کیسینو ملک کے سب سے قدامت پسند علاقے نارداران کے قریب بنایا جائے گا۔ کئی برسوں سے اس علاقے کے دارالحکومت باکو سے اختلافات رہے ہیں۔ مگر یہیں آذربائیجانی اور روسی تاجر امین اگالاروف کا ایک سیاحتی ریزورٹ بھی واقع ہے۔
مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان کا پہلا کیسینو ملک کے سب سے قدامت پسند علاقے نارداران کے قریب بنایا جائے گا۔ کئی برسوں سے اس علاقے کے دارالحکومت باکو سے اختلافات رہے ہیں مگر یہیں آذربائیجانی اور روسی تاجر امین اگالاروف کا ایک سیاحتی ریزورٹ بھی واقع ہے۔
یہ سیاحتی مقام بحیرہ کیسپین یا بحیرۂ قزوین میں موجود ہے جو دراصل انسانوں کا بنایا گیا ایک جزیرہ ہے۔ یہاں کروز لائنر، سوئمنگ پول، باغات اور سڑکیں بھی ہیں۔
یہاں پر ایک11 منزلہ عمارت تعمیر کی جا رہی ہے جس کے تخلیق کار اسے ’آرکیٹیکچرل شاہکار‘ کہتے ہیں۔ سب سے چھوٹے زیرِ تعمیر اپارٹمنٹ کی قیمت بھی پانچ لاکھ ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔
اسی عمارت میں آذربائیجان کے پہلے کیسینو کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو یورپ کا سب سے بڑا کیسینو ہو گا۔
سیاحتی ریزورٹ ’سی بریز‘ میں اس عمارت کے علاوہ پہلے سے زیر قبضہ ٹاؤن ہاؤسز اور ولاز، کنسرٹ ہالز اور اعلیٰ درجے کے ریستوران شامل ہیں۔ یہ دولت مند آذربائیجانیوں اور روسیوں کا گھر ہے۔
بی بی سی کو ایک ذرائع نے بتایا کہ ’ہم کہتے ہیں غریب روسی تبلیسی اور یریوان جاتے ہیں اور امیر لوگ سی بریز جاتے ہیں۔‘
سی بریز نارداران کے قریب واقع ہے۔ اس کا باکو اور ملک کے مرکزی ہوائی اڈے سے صرف 30 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔
لگژری ریزورٹ 18 برس سے زیرِ تعمیر ہے اور یہ ایک ایسے قدامت پسند مذہبی گاؤں کے قریب موجود ہے جس کی مرکزی حکام کے خلاف جدوجہد کی ایک خونی تاریخ رہی ہے۔
سب سے قدامت پسند گاؤں
مقامی لوگوں نے احتجاج کے دوران امریکی اور اسرائیلی پرچموں کو نذرِ آتش کیانارداران ایک عام آذربائیجانی گاؤں کی طرح لگتا ہے۔ یہاں چونے کے پتھر سے بنے گھر، پرانے باکو کے مضافاتی دیہات کی طرح کی بے روزگاری اور غربت اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔ مگر مرکزی سڑک جو باکو سے سمندر تک آتی ہے، وہ شاندار ہے۔
لوگ بجلی کے بِل میں کمی کے لیے رات کو لائٹیں نہیں جلاتے، سردیوں میں اپنے گھروں کو گرم نہیں کرتے اور اکثر دکانوں سے چیزیں ادھار پر خریدتے ہیں۔
نارداران کے رہائشی بنیادی طور پر دوسری جگہوں کی کمائی پر گزارہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہی باغات سے پھل سبزیاں کھاتے ہیں۔
باکو کے مقابلے یہاں اوسط تنخواہیں تقریباً نصف ہیں۔ 1990 کی دہائی میں نارداران روس میں فروخت کے لیے پھول اور ٹماٹر اگانے کے لیے مشہور تھا لیکن اس کے بعد بڑی کمپنیوں نے ان سے یہ کاروبار چھین لیا۔
گاؤں کی سب سے نمایاں خصوصیت خود نارداران کے لوگ ہیں۔ یہاں مذہبی طور پر سب سے قدامت پسند لوگ آباد ہیں، ایک ایسے ملک میں جہاں ایک سروے کے مطابق صرف 20 فیصد مسلمان مسجد میں حاضری کو فرض سمجھتے ہیں۔
کتاب ’آذربائیجان میں اسلام میں‘ کے مصنف اور مورخ عارف یونسوف کا خیال ہے کہ ’نارداران آذربائیجان کے لیے ایک خاص جگہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی مرکز ہے۔‘
’وہاں کئی پرانی مساجد ہیں جن کا تعلق داستانوں سے ہے جہاں پورے آذربائیجان سے آنے والے عازمین زیارت بھی کرتے تھے۔‘
سوویت یونین کے خاتمے کے تقریباً فوراً بعد آذربائیجان کی اسلامک پارٹی کی بنیاد نارادران میں رکھی گئی تھی۔ یونسوف کے مطابق یہ جماعت سیکولر طاقت کا متبادل بن کر ابھری۔ ’ہر کوئی سمجھ گیا تھا کہ یہ دراصل نارداران کی پارٹی تھی۔‘
نارداران میں ایران نواز نظریات کوئی راز نہیں۔ دونوں ممالک کو شیعہ اسلام جوڑتا ہے۔ یہ جماعت ایرانی نظام کو کامیابی کی کہانی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ باکو کے تہران کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں اور اسی لیے یہ مسئلے کا باعث بنا۔
1995 میں وزارت انصاف نے پارٹی کی رجسٹریشن ختم کر دی تھی اور اس کے رہنماؤں کو ایرانی جاسوس ہونے کے الزام میں قید کر دیا گیا۔ نارداران کے رہائشیوں نے گیس اور بجلی کی بندشوں کے خلاف احتجاج کیا، باکو کی جانب سے تعینات اہلکاروں پر برہمی ظاہر کی اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
قدیم حاجی بخشی مسجد نارداران کا مذہبی مرکز تھی۔ مقامی کارکنوں نے وہاں جمع ہو کر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور امریکی اور اسرائیلی پرچموں کو نذر آتش کیا۔
2000 کی دہائی کے اوائل میں حیدر علییف کے دور میں حکام نے 10,000 آبادی کے اس گاؤں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کی۔ 2002 میں وہاں جھڑپیں ہوئیں اور کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا۔
2015 میں حکام نے نارداران میں ایک خصوصی آپریشن کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ گاؤں میں دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ رہائشیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک پُرامن اجتماع میں شریک تھے۔
نتیجتاً سات افراد مارے گئے اور درجنوں کو گرفتار کیا گیا اور انھیں طویل قید کی سزا دی گئی۔ ان کی گرفتاریوں کے دوران متعدد خلاف ورزیوں کی وجہ سے مقامی انسانی حقوق کے کارکنوں نے انھیں سیاسی قیدی تصور کیا۔ یورپی کنونشن آن ہیومن رائٹس (ای سی ایچ آر) نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی تھی۔
نارداران کو کامیابی سے فتح کیا گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق موجودہ حکومت باکو کی وفادار ہے۔ گاؤں میں کئی مقامات پر پولیس چوکیاں ہیں جس سے وہ راہگیروں اور گاڑیوں کی تلاشی لے سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایسی خبریں چل رہی ہیں کہ لوگوں کو بغیر کسی وضاحت کے مرکزی مسجد میں داخلے سے روکا جاتا ہے۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انھیں صرف اس صورت میں اندر جانے کی اجازت ہے جب وہ کہتے ہیں کہ وہ قریبی قبرستان جا رہے ہیں۔ انھیں سکیورٹی چیک اور شناختی تصدیق کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
ہم نے وضاحت کے لیے حکام اور مسلم بورڈ سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ 2015 میں مذہبی انفراسٹرکچر پر کام کرنے والی ریاستی کمیٹی نے وضاحت دی کہ مساجد اس لیے بند ہیں کیونکہ انھیں ریاست کے ساتھ رجسٹر نہیں کیا گیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بھی لوگ نارداران میں جمع ہوتے ہیں تو وہ فوراً پولیس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں۔ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ 10 سال پہلے تمام چائے خانے بند ہو گئے تھے۔
ناردران کے ایک سابق رہائشی اور اسلامی پارٹی کے رکن علمدار بونیادوف نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اجتماعات ممنوع ہیں اور یہاں تک کہ شادیوں کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
’میرے رشتہ داروں کے ہاں حال ہی میں شادی ہوئی لیکن لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں پولیس سٹیشن جانا پڑتا ہے۔ اگر پولیس افسر اجازت دے تو آپ شادی کر سکتے ہیں لیکن اگر اجازت نہ دے تو آپ نہیں کر سکتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ پڑوس گاؤں میں جا کر شادی کرتے ہیں۔
10 سال قبل بڑی تعداد میں عقیدت مند نارداران کی مرکزی مسجد میں جمع ہوئے تھے لیکن نارداران میں کنسرٹ کی آوازیں ساحل سے بہتی ہوئی سنی جا سکتی ہیں اور جلد ہی وہاں ایک کیسینو کھل جائے گا۔ فی الحال یہ ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا اور واحد منصوبہ ہے۔
آذربائیجان کے موجودہ صدر کے والد حیدر علییف نے 1988 میں جوئے بازی کے اڈوں پر پابندی لگائی تھی۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ جوئے کے اڈے اخلاقی معیار کے برعکس ہیں اور یہ ’نوجوان نسل کی تعلیم اور اخلاقی ترقی پر منفی اثر ڈالتے ہیں، معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور غیر قانونی طور پر حاصل کردہ آمدنی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں۔‘
لیکن 2025 کے موسم گرما کے اوائل میں پارلیمنٹ نے ایک بار پھر جوئے بازی کے اڈوں کو اس شرط پر قانونی حیثیت دے دی کہ اگر ایسے کیسینو کسی مصنوعی جزیرے پر واقع ہوں۔
ارکان پارلیمنٹ نے اس حقیقت کا حوالہ دیا کہ اس سے ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، سیاحت بڑھے گی اور نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
واحد مصنوعی جزیرہ سی بریز ہے جو آذربائیجانی روسی تاجر امین اگالاروف کا ہے۔
’اگالاروف کا قانون‘
امین نے اپنے کاروباری کیریئر کا آغاز اپنے والد اراز اگالاروف کی کمپنی میں کیا۔ ان کے والد ایک روسی ارب پتی ہیں جو کروکس گروپ ہولڈنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ اس کمپنی کے کاروبار میں شاپنگ اور تفریحی مراکز کے ساتھ ساتھ لگژری رئیل اسٹیٹ بھی شامل ہے۔
جب امین چار سال کے تھے تو یہ خاندان باکو سے ماسکو چلا گیا۔ امین نے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کی۔
روس واپس آکر وہ پہلے کمرشل ڈائریکٹر اور پھر اپنے والد کی کمپنی کے نائب صدر بن گئے جبکہ بیک وقت میوزیکل کیریئر کو ترقی دیتے رہے۔ بعض اوقات نہ صرف روس اور آذربائیجان میں بلکہ یورپ میں بھی انھوں نے کامیابیاں سمیٹیں۔
2023 میں انھوں نے کروکس گروپ چھوڑ دیا اور اپنی کمپنی اگالاروف ڈیویلپمنٹ بنائی جس کے اکثر پراجیکٹ آذربائیجان میں واقع ہیں۔ باکو میں انھیں صدر کی بیٹی لیلیٰ علییف کے سابق شوہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ان کی 10 سال قبل طلاق ہو گئی تھی لیکن قدامت پسند آذربائیجانی معاشرے کے لیے وہ اب بھی صدارتی خاندان کا حصہ ہیں۔
وہ بطور گلوکار سی بریز میں پرفارم کرتے ہیںحزب اختلاف نے آذربائیجان میں کیسینو کی اجازت دینے والے نئے قانون کو الہام علییف کی ذاتی سرپرستی کی علامت کے طور پر دیکھتے ہوئے اسے ’اگلاروف کا قانون‘ کا نام دیا ہے۔
امین اگالاروف کے بعد حکومت کے حامی پریس نے یہ وضاحت کرنا شروع کی کہ اس منصوبے سے غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو گا اور آذربائیجانی خود بیرون ملک جوئے کے اڈوں میں پیسہ کھونا بند کر دیں گے اور وہ اپنے ملک میں ہی ایسا کریں گے۔
تاہم اگلاروف کی کمپنی ملک کی معیشت سے منافع کمانے کی توقع رکھتی ہے۔ بی بی سی کے استفسار کے جواب میں اگالاروف ڈیویلپمنٹ نے کہا کہ ان کے لیے یہ بنیادی طور پر اہم ہے کہ وہ قریبی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے مواقع پیدا کریں۔'
کیسینو کو ناداران کے قریب بنانے پر اعتراض
نارداران کے ایک بزرگ رہائشی امر اللہ (ہم نے ان کے کہنے پر نام تبدیل کر دیا) کا کہنا ہے کہ ’اصل بات یہ ہے کہ وہ ہمیں اکیلا چھوڑ دیں، شور نہ مچائیں اور ہمارے اصولوں پر عمل کریں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ انھیں خوشی ہے کہ ان کے گاؤں میں سیاح شارٹس نہیں پہنتے اور دکانوں پر شراب نہیں بکتی اور وہ ساحلی علاقے کو اب نارداران بھی نہیں سمجھتے۔
امر اللہ مذہبی تعطیلات کے دوران تفریحی مقامات پر آنے والی موسیقی کی آوازوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ اس کے مثبت پہلوؤں کو بھی تسلیم کرتے ہیں، جیسے مقامی نوجوان کچھ نہ کرنے کے بجائے سی بریز جیسے تعمیراتی مقامات میں ملازمت حاصل کر سکیں گے۔
اگلاروف ڈیویلپمنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت 7500 سے زیادہ لوگ سی بریز پر کام کر رہے ہیں اور اگلے چند برسوں میں اس تعداد کو دگنا کرنے کا منصوبہ ہے۔
’اس کے علاوہ ان میں سے 15 سے 20 فیصد مقامی باشندے ہوں گے۔ نارداران کے لوگوں کی 10 فیصد نمائندگی ہو گی۔‘
اس کے باوجود آذربائیجان میں کچھ لوگ ایسی جگہ پر جوئے کے اڈوں کی تعمیر سے ناراض ہیں کیونکہ اسے مذہب میں جائز نہیں سمجھا جاتا۔
امین اکبر صدارتی خاندان کے ساتھ تصاویر میں نظر آتے ہیںناردران کے رہنے والے علمدار بونیادوف کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے سنا کہ وہ ایک کیسینو کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو میں سمجھ گیا کہ وہ نارداران پر دروازہ بند کرنا چاہتے ہیں۔‘
’کیونکہ کسی مذہبی مرکز میں جوئے بازی کے اڈوں کو کھولنا عام طور پر ناردران اور آذربائیجان کے لوگوں دونوں کو ناراض کرنے کا ایک طریقہ ہو گا۔ جوئے کے اڈوں اور ڈسکوز کی آوازیں اذان کی آوازوں کے ساتھ مل جائیں گی۔‘
مورخ عارف یونسوف کا کہنا ہے کہ نارداران میں کیسینو کھولنا ان کا مذاق اڑانے کے متراف ہے۔ ’جزیرہ بڑا ہے، کسی بھی اور جگہ کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ لیکن وہاں ایک بستی ہے جو کبھی آپ کے قابو سے باہر تھی اور اب وہاں ایک کیسینو نفسیاتی دباؤ کی طرح ہوگا۔‘
مذہبی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والی ریاستی کمیٹی اور مسلم انتظامیہ نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
اگلاروف ڈیویلپمنٹ نے یاد دلایا کہ آذربائیجان ’ایک سیکولر ملک ہے جس کے اہم سماجی مقاصد میں سے ایک شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ ہے۔‘
کمپنی نے کہا کہ ’ہم خطے کی مذہبی اور ثقافتی روایات کا احترام کرتے ہیں اور ہم پُراعتماد ہیں کہ اس منصوبے کو معاشرے کے مفادات کے مطابق لاگو کیا جائے گا۔‘
خلا سے لی گئی تصاویر سمندر میں پھیلے مصنوعی جزیرے کو دکھاتی ہیں۔ اگر آپ تصاویر کو ریوائنڈ کرتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ساحلی علاقے پر قبضے کے بعد یہ جزیرہ نارداران تک پہنچ گیا۔
اس علاقے پر قبضہ کیا گیا اور اسے مسمار کیا جاتا تھا۔ 2021 میں ای سی ایچ آر نے مقامی حکام کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا اور نارداران کے 18 رہائشیوں کو 234,000 یورو معاوضہ دیا۔
علمدار بنیادوف کہتے ہیں کہ ’میرا باغ بھی وہاں سی بریز کے بہت قریب تھا۔ میں نے اسے اپنے رشتہ داروں کی طرح کھو دیا۔ بہت سے لوگ زندہ رہنے کے لیے ان باغات پر انحصار کرتے تھے۔‘