پاکستان اور افغانستان کے درمیان 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی ہو گئی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’طالبان حکومت کی درخواست پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بدھ کی شام 6 بجے سے آئندہ 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے۔‘
’اس دوران دونوں اطراف تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مگر قابل حل مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔‘
جنگ بندی پاکستان کی درخواست پر کی گئی: ترجمان طالبان انتظامیہ کا موقف
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان کی طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ’جنگ بندی کا معاہدہ پاکستان کی درخواست اور اصرار پر کیا گیا۔‘
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’افغانستان نے اپنی تمام افواج کو ہدایت کی ہے کہ جب تک دوسری طرف سے کوئی جارحیت نہیں ہوتی اس وقت تک سیزفائر کی پابندی کی جائے۔‘
اس سے قبل بدھ کو ہی پاکستان نے افغانستان کے صوبہ قندھار اور دارالحکومت کابل میں افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ حملے کیے۔
سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ’پاکستانی فوج نے قندھار میں افغان طالبان کی بٹالین کے ہیڈکوارٹرز نمبر 4، 8 بٹالین اور بارڈر بریگیڈ نمبر 5 کے اہداف کو نشانہ بنایا۔
’یہ تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کیے گئے جو شہری آبادی سے الگ تھلگ تھے اور کامیابی سے تباہ کیے گئے۔ کابل میں بی ایل اے کے مرکز اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔‘
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی فوج کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔‘
اس سے قبل پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا کہ ’بدھ کی صبح چمن بارڈر پر افغانستان کی جانب سے چار مقامات پر حملے کیے گئے جنہیں پسپا کر دیا گیا۔‘
بیان کے مطابق پاکستان کی جوابی کارروائی میں 15 سے 20 افغان طالبان ہلاک ہوئے۔
دفتر خارجہ کے مطابق ’جنگ بندی کے دوران فریقین مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان طالبان نے باب دوستی کے ان کے ملک کی طرف کے حصے کو تباہ کر دیا ہے اور گولہ باری کرتے ہوئے شہری آبادی کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔
بیان میں ایسی تمام باتوں کو اشتعال انگیز اور کھلا جھوٹ قرار دیا گیا ہے کہ حملے کا آغاز پاکستان نے کیا۔
’یہ بات انہی دعوؤں کی طرح جھوٹ ہے جیسے پاکستان کی پوسٹوں یا آلات پر قبضے کے حوالے سے کیے گئے تھے۔‘
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’14 اور 15 اکتوبر کو بھی افغان طالبان اور فتنہ الخوارج نے خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے کرم میں پاکستانی پوسٹس پر حملے کرنے کی کوشش کی جسے موثر طور پر ناکام بنا دیا گیا۔‘
’جوابی کارروائی میں افغانستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے چھ ٹینکوں سمیت آٹھ چوکیاں تباہ ہو گئیں۔‘
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ’جوابی کارروائی کے بارے میں امکان یہی ہے کہ اس میں 25 سے 30 افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے جنگجو مارے گئے۔‘
اس سے قبل بلوچستان کے سرحدی ضلع چمن سے متصل پاکستان افغان سرحد پر پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں دونوں جانب سے بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔
مقامی افراد کے مطابق ’سب سے پہلے نواحی علاقے سوئی کاریز کے قریب شدید دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔‘
یہ جھڑپیں ایک ایسے وقت ہوئی ہیں جب منگل کی رات کو پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق خیبر پختونخوا میں افغانستان سے متصل ضلع کُرم میں پاکستانی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔