انڈیا کی وزارت ماحولیات کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے جموں کشمیر کے علاقے رمبان میں دریائے چناب پر 1856 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے مجوزہ ساولکوٹ ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی ’انوائرمینٹل کلیئرنس‘ دے دی ہے۔ پاکستانی ماہرین کو اس پر کیا تحفظات ہیں؟
اس منصوبے کی مجوزہ لاگت 314 ارب روپے کے لگ بھگ ہےانڈیا کی وزارت ماحولیات کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے جموں کشمیر کے علاقے رمبان میں دریائے چناب پر 1856 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے مجوزہ ساولکوٹ ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی ’انوائرمینٹل کلیئرنس‘ (یعنی اس منصوبے کے ماحولیات پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے) دے دی ہے۔
انڈین حکومت کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ معطل ہے۔
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ کے مطابق ساولکوٹ پراجیکٹ دریائے چناب کے طاس میں انڈیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں میں سے ایک ہے اور سٹریٹجک لحاظ سے اہم سمجھنے جانے والا یہ منصوبہ تقریباً چار دہائیوں سے تعطل کا شکار تھا، تاہم اب اس پر کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔
پاکستان دریائے چناب پر تعمیر کیے جانے والے اس نوعیت کے انڈین منصوبوں کی مخالفت کرتا رہا ہے اور انھیں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔
اس انڈین اقدام کے بعد پاکستان میں آبی وسائل پر کام کرنے والے ماہرین کو خدشہ ہے کہ انڈیا پانی کے ذخیرے کے لیے بنائے جانے والے اس نوعیت کے منصوبوں کو کشیدگی کے دوران بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ 22 اپریل کو جموں و انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد انڈین حکومت نے پاکستان کے خلاف کئی سفارتی اقدامات کیے تھے اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے باوجود اس مجوزہ منصوبے کو آگے بڑھانے پر پاکستانی ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پانی کی مسئلے کے حل کے لیے 1960 میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو اور مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا پانی انڈیا کو دے دیا گیا۔
انڈیا کے پاس اپنے پانیوں پر ہائیڈرو الیکٹرک پاور جنریشن کے منصوبے، نیویگیشن اور دریائی بیسن میں ماہی گیری سمیت دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے محدود حقوق ہیں۔
’ساؤتھ ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز، ریورز اینڈ پیپل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے دریائے چناب کے طاس میں 39 سے زیادہ بڑے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے موجود ہیں، جو یا تو زیر تعمیر ہیں یا منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں۔ اگر تمام منصوبے بنائے جاتے ہیں تو دریا کا 10 فیصد سے بھی کم پانی قدرتی طور پر بہے گا۔
بعض مقامی افراد بھی ان منصوبوں کے خلاف ہیں۔
’ساولکوٹ منصوبے کی تکمیل تک انڈیا سندھ طاس معاہدہ معطل رکھنا چاہے گا‘
دریائے چناب پر انڈیا نے بہت سے آبی منصوبے بنا رکھے ہیںانڈیا کی جانب سے ساولکوٹ ہائڈرو پروجیکٹ بننے کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں پاکستان کے سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی صورت میں اس کو ہمسایہ ملک آبی ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
شیراز میمن نے دعویٰ کیا کہ ’انڈیا 10 سے 15 سال سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھ کر اس نوعیت کے منصوبے بنانا چاہتا ہے۔ اگر اس منصوبے کا مثبت طور پر استعمال کیا گیا تو پاکستان اس سے منفی طورپر متاثر نہیں ہو گا تاہم جنگ کی صورت میں خدشہ ہوتا ہے کہ انڈیا پانی کو وہاں ذخیرہ کرے، اچانک اس کا اخراج کرے اور اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہی ہمارے پارٹنرز کو خدشہ ہے۔‘
شیراز میمن کے مطابق ’معاشی حساب سے بھی دیکھا جائے تو اس کا منفی استعمال خود انڈیا کے لیے نقصاندہ ہو گا تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ ساولکوٹ کو مکمل ہونے پر سندھ طاس معاہدہ معطل رکھیں گے۔‘
شیراز میمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ساولکوٹ کا منصوبہ انڈین حکومت کے پاس تقریباً 15 سے 20 برسوں سے زیر غور ہے۔
ان کے مطابق ’یہ اب تک کا دریائے چناب پر بنائے جانے والا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا جس کا پانی پاکستان کے لیے مختص ہے۔‘
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا ہےسندھ طاس معاہدے کی معطلی کے دوران ایسے منصوبوں سے انڈیا کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ماہر آبی امور ڈاکٹر شعیب نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا انڈیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا نے چناب پر جب بگلیہار ڈیم ،کشن گنگا اور رتلے پن بجلی کے منصوبے شروع کیے تو پراجیکٹس کے ڈیزائن میں کچھ اور بتایا گیا مگر عملاً تعمیر کچھ اور ہوا۔‘
ڈاکٹر شعیب کے مطابق ’ساولکوٹ منصوبہ دریا کے بہتے پانی پر ہے تاہم اگر وہ پانی کے اخراج پر اپنا اختیار رکھتے ہیں یا ڈیزائن کے اندر تبدیلی کرتے ہیں، جس طرح پہلے پراجیکٹس کے اندرکی تھیں، تو اس کی وجہ سے ہمارے لیے خاصے مسائل بن جاتے ہیں۔‘
شیراز میمن کہتے ہیں کہ ’انڈیا دریا کے بہاؤ پر (رن آف ریور) منصوبے بنا سکتا ہے اور سالکوٹ بھی اسی نوعیت کا منصوبہ ہے، لیکن اس منصوبے میں اُن کو بڑا پاؤنڈ چاہیے اور اُن کو علم تھا کہ پاکستان اس پر اعتراض کرے گا۔‘
انڈیا کے مطابق یہ بہت پرانا منصوبہ ہے جسے تقریباً 25 سال پہلے مکمل ہونا تھا۔ انڈیا کا الزام ہے کہ پاکستان اس میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔ تو یہ الزام کتنا درست ہے اور کیا پاکستان کو اس کی تعمیر سے پانی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شعیب نے کہا کہ ’پاکستان کے تین بڑے اضلاع سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور چنیوٹ میں چناب کا پانی ہے اور اگر اس پانی میں کوئی فالٹ لائن آ جائے تو اِن اضلاع میں زراعت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر شعیب نے رکاوٹیں ڈالنے کے الزام کو رد کیا۔
’ان منصوبوں میں پاکستان رکاوٹیں نہیں ڈال رہا بلکہ یہ انڈس واٹر ٹریٹی میں شامل ہے کہ اگر انڈیا وہاں پر کوئی بھی منصوبہ بنائے گا تو وہ اس کا تمام تر ڈیٹا، اس کا ڈیزائن وغیرہ پاکستان کے ساتھ شیئر کرے گا۔ جبکہ وہ ایسا نہیں کرتے اور وہ جو بتاتے ہیں، ویسا نہیں ہوتا اور اسی کے تحت پاکستان اعتراض کرتا ہے۔‘
ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ رکاوٹ منصوبوں کی تعمیر میں نہیں بلکہ بنیادی طور پر قانونی مسائل اور جانچ پڑتال کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ساولکوٹ ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کیا ہے؟
اس پروجیکٹ کی انوائرمینٹل کلیئرنس جاری کر دی گئی ہےانڈین خبر رساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ کے مطابق نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن لمیٹڈ کے ذریعہ بنائے جانے والے اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 31,380 کروڑ روپے ہے۔ یہ رن آف دی ریور پراجیکٹ جموں و کشمیر کے رامبن، ریاسی اور ادھم پور اضلاع میں تعمیر کیا جانا ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق یہ 192.5 میٹر اونچا رولر کمپیکٹڈ کنکریٹ ڈیم اور زیر زمین پاور ہاؤس پر مشتمل منصوبہ ہے۔ اسے سالانہ تقریباً 7,534 ملین یونٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یہ انڈیا کے زیر انتظام علاقے میں سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ ہو گا جو شمالی ریاستوں کے لیے پاور اور گرڈ کی بہتر سہولیات فراہم کرے گا۔
یہ منصوبہ ترقیاتی اور سٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔ خطے میں بجلی کی فراہمی میں اضافے کے ساتھ یہ منصوبہ انڈیا کو چناب کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور محفوظ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرے گا۔
وزارت ماحولیات میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا کُل رقبہ 1,401.35 ہیکٹر ہے، جس میں سے 847.17 ہیکٹر جنگلاتی زمین ہے۔
پہلے مرحلے میں اس منصوبے کے باعث 13 دیہات متاثر ہوں گے اور یہاں بسنے والے تقریباً 1,500 خاندانوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جائے گا۔
ساولکوٹ منصوبے میں تاخیر
ساولکوٹ منصوبہ پہلی بار 1980 کی دہائی میں بنایا گیا تھاپی ٹی آئی کے مطابق ساولکوٹ پراجیکٹ کی منصوبہ بندی پہلی بار 1980 کی دہائی میں کی گئی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ تاخیر کا شکار رہا ہے۔
’انڈس واٹر ٹریٹی، مررنگ دی فیکٹس‘ کے مصنف اور 30 سال سے پانی کے مسائل کا مطالعہ کرنے والے سنت کمار شرما کہتے ہیں کہ یہ بہت پرانا منصوبہ ہے جسے تقریباً 25 سال پہلے مکمل ہونا چاہیے تھا۔
سنت کمار شرما کے مطابق ’ماضی میں پاکستان اس میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔ انڈین حکومت نے سندھ طاس معاہدے پر یہ کہتے ہوئے گفتگو کی کوشش کی تھی کہ معاہدے کے آرٹیکل 12 کے مطابق اس پر دوبارہ بات چیت ہو سکتی ہے۔ جنوری 2023 میں انڈین حکومت نے پاکستانی حکومت کو نوٹس بھیجا تھا کہ ہم دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان نے اسے قبول نہیں کیا۔‘
شرما کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ فیصلہ لینے میں تقریباً نو سال لگے۔ سنہ 2016 سے 2025 تک مودی کی طرف سے بہت کوششیں کی گئیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’اب انڈیا کہہ سکتا ہے کہ ہم نے ساولکوٹ کا فیصلہ ایسے وقت میں لیا جب سندھ طاس معاہدہ معطل ہوا تھا۔‘
سنت کمار شرما کے مطابق چناب پر بنائے جا رہے پراجیکٹس جموں و کشمیر کو بجلی کے معاملے میں خود کفیل کریں گے۔
شرما کہتے ہیں کہ ’پاکالدول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ 1000 میگاواٹ اور رتلے 800 میگاواٹ کی صلاحیت کے ساتھ پہلے ہی بنائے جا رہے ہیں۔ جب ساولکوٹ پراجیکٹ مکمل ہو جائے گا، تو اس سے ریاست میں 3600 میگاواٹ کے ساتھ بجلی کا سرپلس ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس سے صنعت کو بھی فروغ ملے گا اور توانائی کے شعبے میں بھی تحفظ ملے گا۔ تاہم اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا جب تک کہ ڈیموں کو کسی فوجی مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔‘
چناب منصوبے پر کیا تحفظات ہیں؟
منصوبے سے جنگلات کے نقصان اور دریاؤں پر پڑنے والے اثرات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیاپی ٹی آئی کے مطابق، سنہ 2016 کے اوائل میں ادھم پور، ریاسی اور رامبن میں اس منصوبے پر عوامی سماعتوں کا انعقاد کیا گیا جہاں مقامی لوگوں نے اس منصوبے کے عوض اچھے معاوضوں، اچھی کنیکٹیویٹی، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم کی سہولیات اور مفت بجلی کا مطالبہ کیا۔
چند افراد اور تنظیموں کی جانب سے اس منصوبے کے جنگلاتی اراضی اور دریاؤں پر پڑنے والے اثرات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اکنامک ایڈوائزری کونسل نے تازہ ترین ماحولیاتی ڈیٹا اور جوابات کا جائزہ لینے کے بعد، تجویز کو ضوابط کے مطابق پایا اور مخصوص ماحولیاتی تحفظات کے نفاذ سے مشروط منظوری کی سفارش کی۔