عدالت کا علم ہوا کہ غلط حساب کتاب کی وجہ سے جوڑے کے اثاثوں کی قیمت زیادہ ظاہر ہوئی۔ عدالت نے اس نے کیس کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔
چی تائی وان جنوبی کوریا کی ایک بڑی اور ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں جن کی سابقہ اہلیہ ملک کے سابق صدر کی بیٹی تھیںجنوبی کوریا کی سپریم کورٹ نے ایک ماتحت عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں ملک کی ایک بڑی کاروباری شخصیت کو اپنی سابقہ اہلیہ کو ایک ارب ڈالر بطور تصفیہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جنوبی کوریا کی ارب پتی شخصیت چی وان تائی کی اپنی اہلیہ کے ساتھ طلاق کے اس مقدمے کو ملک کے ذرائع ابلاغ میں ’ڈائیورس آف دی سنچری‘ یعنی صدی کی سب سے بڑی علیحدگی قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اس جوڑے کے اثاثوں کی قیمتوں کا غلط حساب کتاب ہوا جس کی بنیاد پر ماتحت عدالت نے شوہر کو سابقہ بیوی کو ایک ارب ڈالر بطور تصفیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کو اس کیس کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔
یہ مقدمہ پورے جنوبی کوریا میں زیر بحث ہے کیونکہ چی تائی وان ملک کے طاقتور کاروباری ادارے ’ایس کے گروپ‘ کے سربراہ ہیں جبکہ اُن کی سابقہ اہلیہ روہ سو ینگ جنوبی کوریا کے سابق صدر کی بیٹی ہیں۔
یہ شادی سنہ 2015میں اُس وقت ٹوٹ گئی تھی جب چی تائی وان نے اپنی ایک محبوبہ کے بچے کا باپ بننے کا اعتراف کیا تھا۔
سنہ 2024 میں اس طلاق کے کیس میں عدالت نے چی تائی وان کو بطور تصفیہ 1.38 کھرب وون (جنوبی کوریائی کرنسی) اپنی سابقہ اہلیہ کو ادا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اُس وقت اسے ’جنوبی کوریا کی تاریخ میں سب سے بڑا طلاقکا تصفیہ‘ قرار دیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سابقہ اہلیہ کے والد اور جنوبی کوریا کے سابق صدر تائی وو کی جانب سے دیے گئے 30 ارب وون کے فنڈز نے ایس کے گروپ کو وسعت دینے میں مدد کی تھی چنانچہ اس بڑے کاروباری گروپ کو جوڑے کے مشترکہ اثاثوں میں شامل سمجھا جا سکتا ہے۔
اس فیصلے کے بعد چی تائی وان نے عدالت سے اس معاملے میں تصفیے کی اپیل کی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نے اس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ فنڈ سابق صدر کی طرف سے غیر قانونی طور پر وصول کی گئی رشوت سے قائم کیا گیا اور اس طرح اسے جوڑے کے مشترکہ اثاثوں کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
چی تائی وان کے وکیل لی جے گیون نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر فیصلہ کیا ہے کہ جوڑے کی مشترکہ جائیداد میں شراکت کے طور پر اسے تسلیم کرنا غلط تھا۔‘
تاہم سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے جس میں سابقہ اہلیہ کو دو ارب وون کے اخراجات کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ایس کے گروپ کے حصص میں 5.4فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی کیونکہ سرمایہ کار اس معاملے کو اب قانونی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایس کے گروپ میں کچھ زیادہ ہلچل کا امکان نہیں ہے کیونکہ چی فوری طور پر اپنی طلاق کے تصفیے کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے پر مجبور نہیں ہیں۔
وہ گروپ کے اہم ذیلی اداروں جیسے ایس کے ٹیلی کام ، ایس کے سکوائر اور ایس کے انوویشن کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ایس کے گروپ کے کاروبار ٹیلی مواصلات، توانائی، دواسازی اور سیمی کنڈکٹر کے شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔