جیل کے سرکاری اکاؤنٹ سے 52 لاکھ روپے کا فراڈ: ملزم نے پیسوں سے بہن کی شادی کی اور بلٹ بائیک خریدی

الزام ہے کہ ایک قیدی اور ایک سابق قیدی نے جیل کے دو ملازمین کے ساتھ مل کر سرکاری اکاؤنٹ سے 52.85 لاکھ روپے ایک پرائیویٹ اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔
پولیس پوچھ گچھ کے دوران ملزم رام جیت یادو نے بتایا کہ انھوں نے فراڈ کے پیسے سے اپنی بہن کی شادی شاندار طریقے سے کی تھی۔ اس شادی پر تقریباً 25 لاکھ روپے خرچ ہوئے
Getty Images
پولیس پوچھ گچھ کے دوران ملزم رام جیت یادو نے بتایا کہ انھوں نے فراڈ کے پیسے سے اپنی بہن کی شادی شاندار طریقے سے کی تھی۔ اس شادی پر تقریباً 25 لاکھ روپے خرچ ہوئے

انڈین ریاست اتر پردیش کی اعظم گڑھ جیل میں ایک عجیب معاملہ پیش آیا ہے۔ ایک قیدی اور ایک سابق قیدی نے جیل کے دو ملازمین کے ساتھ مل کر سرکاری اکاؤنٹ سے 52.85 لاکھ روپے ایک پرائیویٹ اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔

اعظم گڑھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (سٹی) مدھوبن سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ دھوکہ دہی فرضی ڈاک ٹکٹوں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے دستخطوں سے کی گئی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی ایسا فراڈ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

مدھوبن سنگھ نے کہا ’شیوشنکر اور رام جیت نے جیل کے اکاؤنٹس انچارج مشیر احمد اور چوکیدار اودھیش پانڈے کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ ان چاروں نے مل کر جیل سپرنٹنڈنٹ کے دستخط اور مہر کی جعلسازی کی۔‘

جیل سپرنٹنڈنٹ آدتیہ کمار نے بتایا کہ یہ فراڈ ایک سادہ سے سوال کے ذریعے سامنے آیا۔

سوال یہ تھا کہ ’بنارس ہندو یونیورسٹی میڈیکل کالج (بی ایچ یو) میں ایک قیدی کے علاج کے لیے بھیجی گئی باقی رقم ابھی تک واپس کیوں نہیں کی گئی؟‘

یہ سوال سینیئر اسسٹنٹ (اکاؤنٹس انچارج) مشیر احمد سے پوچھا گیا۔

اور اس ایک سوال سے ہی اس فراڈ کے دھاگے کھلنا شروع ہوئے۔

فراڈ کیسے سامنے آیا؟

جیل سپرنٹنڈنٹ آدتیہ کمار نے 10 اکتوبر کو اعظم گڑھ پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرائی۔

آدتیہ کمار کا کہنا ہے کہ مشیر احمد کی جانب سے اس سوال کا واضح جواب نہ ملنے پر ان کے شکوک و شبہات بڑھ گئے اور انھوں نے بینک سے اکاؤنٹ کی تفصیلات مانگیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک قیدی کو بنارس کے میڈیکل کالج میں علاج کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔ جیل انتظامیہ نے ان کے علاج کے لیے رقم ہسپتال بھیجی تھی تاہم چیک تبدیل کر دیا گیا اور رقم رام جیت کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی۔

بینک کے دستاویزات منظر عام پر آئے تو انکشاف ہوا کہ جیل کے سرکاری اکاؤنٹ سے دو لاکھ 60 ہزار روپے ایک قیدی کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے تھے۔

اعظم گڑھ پولیس کے مطابق اس سازش میں ایک قیدی، ایک سابق قیدی، جیل کا ایک ملازم اور جیل کا چوکیدار شامل ہیں
Manav Srivastava
اعظم گڑھ پولیس کے مطابق اس سازش میں ایک قیدی، ایک سابق قیدی، جیل کا ایک ملازم اور جیل کا چوکیدار شامل ہیں

اعظم گڑھ پولیس نے بتایا کہ ایک قیدی، ایک سابق قیدی، ایک جیل ملازم اور جیل کے چوکیدار نے مل کر سرکاری اکاؤنٹ سے 52 لاکھ 85 ہزار روپے نکال لیے۔

یہ رقم چند مہینوں میں بتدریج نکال لی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اس بارے میں پتہ نہ چلا۔

پولیس نے کہا ہے کہ تفتیش سے پتہ چلا کہ رقم رام جیت یادو نامی قیدی کے اکاؤنٹ میں گئی تھی۔ رام جیت کو 2011 میں جہیز کے مقدمات (دفعہ 304 بی) اور 498 اے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

وہ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد 2024 میں جیل سے رہا ہوئے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ شیوشنکر یادو نامی قیدی مشیر احمد کا اکاؤنٹنگ اسسٹنٹ تھا۔ وہ قتل کے ایک مقدمے میں سزا کاٹ رہے تھے۔

جیل میں تعلیم یافتہ قیدیوں کو ایسے کام کے لیے رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ 2023 سے جیل کے اندر یہ کام کر رہے ہیں۔

ان کڑیوں نے قیدیوں کو جیل کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ تک رسائی فراہم کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شیوشنکر یادو نے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے تمام کام چیک بک سے لے کر پاس بک، سٹامپ اور دستخط تک کو سمجھ لیا تھا۔

جیل میں رچی سازش

پولیس سپرنٹنڈنٹ مدھوبن سنگھ نے کہا ’مشیر احمد چیک بک اور پاس بک کے انچارج تھے۔ انھوں نے خالی چیک نکالے اور ان پر دستخط کیے۔‘

پولیس کا کہنا تھا کہ یہ سارا کام اتنی آسانی سے کیا گیا کہ جیل کے ریکارڈ میں سب کچھ درست نظر آیا۔ پاس بک اور کیش ریکارڈ ایک دوسرے سے مماثل تھے۔

جیل سپرنٹنڈنٹ آدتیہ کمار کو اس واقعہ پر بہت حیرت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے ماتحت کام کرنے والے لوگ ایسا کریں گے۔

آدتیہ کمار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ میرے لیے صدمے سے کم نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے اس دن بینک سٹیٹمنٹ نہ مانگی ہوتی تو شاید یہ واقعہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا۔

اُن کے بقول ’یہ سازش جیل میں رچی گئی۔‘

پولیس نے کہا ہے کہ یہ رقم رام جیت یادو نامی قیدی کے ذاتی اکاؤنٹ میں جا رہی تھی
Manav Srivastava
پولیس نے کہا ہے کہ یہ رقم رام جیت یادو نامی قیدی کے ذاتی اکاؤنٹ میں جا رہی تھی

نیٹ ورک جیل سے بینک تک پھیلا ہوا تھا

پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رام جیت یادو کو 20 مئی 2024 کو سزا پوری کرنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ دوسرے قیدی شیوشنکر ہیں جو قتل کے ایک مقدمے میں جیل میں ہیں۔

ان دونوں کو جیل کے اکاؤنٹس آفس میں سینیئر اسسٹنٹ مشیر احمد کے لیے کام کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

سینیئر اسسٹنٹ مشیر احمد جیل میں تمام کھاتوں کی پاس بک اور چیک بک کے انچارج تھے اور اودھیش پانڈے بینک کے روزمرہ کے کاموں کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے مطابق اودھیش پانڈے رام جیت کو چیک دیتے تھے اور وہ اپنے نام پر رقم نکالتے تھے۔

پولیس کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی رام جیت اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے۔

پولیس نے بتایا کہ ابتدائی طور پر شک سے بچنے کے لیے دس سے بیس ہزار روپے نکالے گئے۔ بینک ملازمین کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد یہ رقم لاکھوں میں منتقل ہونے لگی۔

پولیس کو شبہ ہے کہ بینک حکام کی جانب سے غفلت یا ملی بھگت ہو سکتی ہے کیونکہ جیل کے سرکاری اکاؤنٹ سے اتنی بڑی ٹرانزیکشن بغیر کراس ویریفکیشن کے نہیں ہوسکتی تھیں۔

پولیس کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بینک حکام نے بار بار ہونے والے لین دین پر کبھی سوال نہیں اٹھایا۔

انھیں یہ بھی مشکوک نہیں لگا کہ اسی نام پر سرکاری اکاؤنٹ سے رقم نکالی جا رہی ہے۔ اب پولیس ٹیم بینک ملازمین سے بھی تفتیش کر رہی ہے۔

جیل کے پیسوں سے بہن کی شادی

پولیس پوچھ گچھ کے دوران ملزم رام جیت یادو نے بتایا کہ انھوں نے فراڈ کے پیسے سے اپنی بہن کی شادی شاندار طریقے سے کی تھی۔ اس شادی پر تقریباً 25 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ ملزم نے 3.75 لاکھ روپے میں ایک بلٹ موٹر سائیکل بھی خریدی۔

انھوں نے کچھ رقم اپنے پرانے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کی اور باقی رقم اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دی۔

مشیر احمد نے سات لاکھ روپے، شیوشنکر نے پانچ لاکھ روپے اور اودھیش نے ڈیڑھلاکھ روپے اپنے اوپر خرچ کیے۔

11 اکتوبر کی رات پولیس نے پوچھ گچھ کے بعد چاروں ملزمان کو تھانے کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔

ڈی آئی جی جیل خانہ جات شیلیندر کمار نے سنیچر (11 اکتوبر) کو ڈسٹرکٹ جیل کا معائنہ کیا۔ انھوں نے تمام ریکارڈ چیک کرنے اور سپرنٹنڈنٹ اور دیگر افسران سے پوچھ گچھ کرنے میں تقریباً آٹھ گھنٹے گزارے۔

شیلیندر کمار نے کہا کہ یہ معاملہ ’جیل انتظامیہ میں اعتماد اور نگرانی کی ایک بڑی خلاف ورزی‘ ہے۔

اعظم گڑھ جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ جیل کے مالیاتی نظام میں کتنی لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’یہ خیال کہ قیدی بند ہیں اور وہ کچھ نہیں کر سکتے، غلط فہمی ہے۔ جب جرم جیل کے اندر ہوتا ہے تو یہ ’جیل کے اندر کا کھیل‘ بن جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US