وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان اور نئے سوال: کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی دیرپا ثابت ہو گی؟

آخر خواجہ آصف یہ جنگ جاری رہنے کا عندیہ کیوں دے رہے ہیں؟ کیا پاکستان مشرقی اور مغربی بارڈرز دونوں پر تناؤ کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا افغان طالبان بھی پاکستان کے ساتھ طویل لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں ہیں؟ یہ سوالات ہم نے پاکستان اور افغان اُمور کے ماہرین کے سامنے رکھے۔
افغان طالبان
Getty Images
کیا افغان طالبان بھی پاکستان کے ساتھ طویل لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں ہیں؟

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی زیادہ دیر تک نہیں چلے گی کیونکہ ان کے مطابق اس وقت افغانستان کے ’سارے فیصلے دلی سے سپانسر ہو رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ روز اڑتالیس گھنٹوں کے لیے جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دونوں اطراف بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔

تاہم ایک جانب جہاں پاکستانی وزیر دفاع نے افغانستان میں طالبان حکومت پر انڈیا سے قربت کا الزام عائد کیا وہیں ان کا یہ بھی دعوی تھا کہ ’پاکستان نے ٹی ٹی پی پر حملہ کیا تھا لیکن اس کے جواب میں ہونے والی کارروائیوں میں افغانستان بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ دونوں فرنچائز ایک ہی چیز ہیں، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔‘

بدھ کی شب جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے الزام عائد کیا کہ افغانستان اس وقت انڈیا کی پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ ’جھںڈے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور وہ اس وقت انڈیا کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔‘

ان بیانات کی روشنی میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان کا افغان طالبان کی جانب موقف تبدیل ہو چکا ہے اور اگر ایسا ہو تو جنگ بندی کتنی دیر تک جاری رہے گی؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے جنگ بندی کے بیان میں کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز سے یہ کہا گیا ہے کہ جب تک دوسری طرف سے خلاف ورزی نہ ہو تو اس جنگ بندی پر عمل پیرا رہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان یہ لڑائی گذشتہ ہفتے اُس وقت شروع ہوئی تھی، جب پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر کابل اور سرحدی صوبوں میں کارروائیوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف ’انتقامی کارروائی‘ کی تھی۔

ان کارروائیوں میں فریقین نے ایک دوسرے کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

آخر خواجہ آصف یہ جنگ جاری رہنے کا عندیہ کیوں دے رہے ہیں؟ کیا پاکستان مشرقی اور مغربی بارڈرز دونوں پر تناؤ کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا افغان طالبان بھی پاکستان کے ساتھ طویل لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں ہیں؟ یہ سوالات ہم نے پاکستان اور افغان اُمور کے ماہرین کے سامنے رکھے۔

تصویر
Getty Images

’پاکستان کو امیر خان متقی کے دورہ انڈیا پر غصہ ہے‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے لیکن امیر خان متقی کے انڈیا کے دورے نے پاکستان کو شدید ناراض کیا۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار شمیم شاہد کہتے ہیں کہ پاکستان کو طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کے طویل دورہ انڈیا پر غصہ ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کا یہ بیان بھی اسی غصے کا اظہار ہے تاہم اُن کے بقول پاکستان زیادہ دیر تک یہ لڑائی جاری رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

شمیم شاہد کہتے ہیں کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ جس طرح نیپال اور بھوٹان میں انڈیا کا اثر و رسوخ ہے، اسی طرح افغان طالبان کے آنے کے بعد پاکستان، افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر لے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

تجزیہ کار اور صحافی عامر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی جس نہج پر پہنچ گئی ہے، اس میں کمی کا فی الفور کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا اور خواجہ آصف کے بیان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔

اُن کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان معاملات جتنے پیچیدہ ہو چکے ہیں، اُن میں سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک بھی کچھ نہیں کر سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بظاہر تو کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کا معاملہ ہے لیکن اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ سرحدی اُمور، ڈیورنڈ لائن اور دیگر معاملات پر بھی بداعتمادی پائی جاتی ہے اور یہ مسائل ایک ہی روز میں حل نہیں ہو سکتے۔

’پاکستان ٹی ٹی پی کے مسئلے کو کسی منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے‘

عامر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے معاملے کو اب کسی منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اُن کے بقول پاکستان کئی برسوں سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ افغان طالبان، کالعدم تحریک طالبان کو کنٹرول کریں اور اُنھیں پاکستان میں حملے کرنے سے روکیں لیکن پاکستان کو مثبت جواب نہیں ملا۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اب طاقت کے زور پر افغان طالبان پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے کہ وہ اس معاملے پر سرینڈر کر کے سنجیدہ بات کریں اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں۔

اُن کے بقول اسلام آباد کو یہ پتا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی ان کارروائیوں کی زیادہ مخالفت نہیں ہو گی کیونکہ اپنے دفاع کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی دُنیا میں مثال موجود ہے۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ ’اب دُنیا میں پراکسی جنگوں کی کوئی گنجائش نہیں رہی، مشرقِ وسطیٰ میں بھی تقریباً یہ ختم ہو چکی ہیں۔ لہذا پاکستان بھی یہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو اس کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال نہ کریں۔‘

بدھ کو ہونے والی جھڑپوں سے قبل پاکستان نے اتوار کو ہونے والی لڑائی کے بعد معاملات مذاکرات اور سفاری کاری کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مشترکہ مقصد ہے۔‘

لیکن اس کے دو روز بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئیں۔

امیر خان متقی
Getty Images
امیر خان متقی کا انڈیا میں پُرتپاک استقبال کیا گیا تھا

’پاکستان امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے‘

عامر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں گرمجوشی سے بھی استفادہ کرنا چاہتا ہے۔

اُن کے بقول امریکہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے کچھ نہیں کرے گا بلکہ وہ آگے چل کر انسداد دہشت گردی کے معاملات پر پاکستان سے مزید تعاون کرے گا۔

عامر رانا کے بقول اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی میں مزید مدد دے تاکہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف اپنی کارروائیوں کو بڑھا سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی پر امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات میں بھی کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، ٹی ٹی پی اور داعش کے خلاف موثر حکمت عملی پر اتفاق کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اگست میں ہونے والے ان مذاکرات کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فریقین نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے موثر اور دیرپا طریقہ کار کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ سمیت کثیرالجہتی فورموں میں مل کر کام کرنے کے اپنے ارادوں کا اعادہ کیا۔

واضح رہے کہ رواں برس پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ رواں برس کے دوران دہشت گردی کے مختلف واقعات میں پاکستان فوج کے درجنوں افسران اور اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

’آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف بیان‘

دفاعی اُمور کے تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ گو کہ معاملات بہت پیچیدہ ہیں لیکن اس وقت ’آگ پر تیل چھڑکنے کے بجائے پانی ڈالا جانا چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ خواجہ آصف کا بیان آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ اس وقت افغانستان میں بھی پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے معاملے پر بہت صبر و تحمل سے کام لیالیکن جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور آخر کار فریقین کو مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا ہو گا۔

افغانستان
Getty Images
ان کارروائیوں میں فریقین نے ایک دوسرے کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے

کیا مذاکرات مسئلے کا حل ہیں؟

تاہم کیا مذاکرات سے اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے؟ شمیم شاہد کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان خفیہ مذاکرات یا جرگے کے ذریعے بات چیت ہوتی رہی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔

اُن کے بقول مولانا فضل الرحمان نے سنہ 2024 میں افغانستان کا دورہ کیا تھا لیکن اس کے ذریعے بھی دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں دُور نہیں ہو سکی تھیں۔

مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات حل کرانے کی پیشکش کی ہے۔ منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو جنگ بندی کے ساتھ ساتھ لفظی نوک جھونک بھی ختم کرنی چاہیے۔

شمیم شاہد کہتے ہیں کہ ہہلے افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان اب جو بھی مذاکرات ہوں، وہ اعلانیہ ہونے چاہییں اور ان کا ایجنڈا بھی واضح ہونا چاہیے۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ جب تک افغان طالبان، پاکستان کو ٹی ٹی پی سے متعلق کوئی یقین دہانی نہیں کراتے، اُس وقت دونوں ممالک آگے نہیں بڑھ سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2021 کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد دُنیا کا کوئی ملک ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں تھا لیکن یہ پاکستان ہی تھا جو دُنیا پر زور دے رہا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔

اُن کے بقول طالبان نے پاکستان کے اس خلوص کی قدر نہیں کی اور پاکستان کو اپنا حریف بنا لیا۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ پاکستان، اسلام آباد میں طالبان مخالف گروہوں کی کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔

اُن کے بقول امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک تو پہلے ہی افغانستان میں طالبان مخالف گروپس کو قومی دھارے میں لانے پر زور دے رہے تھے اور اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ ادراک ہو چکا ہے کہ افغانستان میں طالبان مخالف گروپس سے بھی بات کرنا ہو گی۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر اسلام آباد کے تھنک ٹینک ’ساؤتھ ایشیا سٹریٹجک سٹیبلیٹی انسٹیٹیوٹ‘ کے زیر اہتمام ’افغان طالبان مخالف‘ گروپس کی دو روزہ کانفرنس ہوئی تھی۔

کانفرنس میں پاکستان میں مقیم افغان صوبوں کے سابق گورنرز، سول سوسائٹی تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے شرکت کی تھی۔

افغانستان
Getty Images
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ خواجہ آصف کا بیان آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے کیونکہ اس وقت افغانستان میں بھی پاکستان مخالف جذبات عروج پر ہیں

کیا افغان طالبان طویل لڑائی لڑنے کے قابل ہیں؟

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان روایتی جنگ طویل عرصے تک لڑ سکتا ہے لیکن یہ صلاحیت افغان طالبان کے پاس نہیں۔

اُن کے بقول افغان طالبان گوریلا جنگ لڑنے کے ماہر ہیں اور اپنی اسی صلاحیت کی بنیاد پر وہ روسی اور امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں پاکستان کو چوکنا رہنا ہو گا کہ اگر افغان طالبان کو پاکستان کے دُشمن ممالک نے اسلحے کی فراہمی شروع کر دی تو پھر افغان طالبان بھی طویل جنگ لڑنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ ’افغان طالبان پاکستان کو کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں کہ جس طرح اُنھوں نے نیٹو افواج، امریکہ اور روس کے ساتھ کیا، اسی طرح وہ لمبی گوریلا جنگ کے ذریعے پاکستان کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔‘

ان کے بقول ’افغان طالبان کے پاس جدید ہتھیار یا لڑاکا طیارے نہیں لیکن وہ ٹی ٹی پی اور افغانستان میں مضبوط ہوتی ہوئی القاعدہ کو پاکستان میں مزید موثر حملوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ دلی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’افغانوں کی ہمت کا امتحان نہ لیا جائے۔ اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے سوویت یونین، امریکہ اور نیٹو سے پوچھنا چاہیے تاکہ وہ سمجھائیں کہ افغانستان کے ساتھ کھیل کھیلنا اچھا نہیں۔‘

امیر خان متقی نے ایک بار پھر افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ’بعض حلقے‘ دونوں ممالک کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

کیا پاکستان، مشرقی اور مغربی سرحدوں پر طویل عرصے تک تناؤ کا متحمل ہو سکتا ہے؟

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے اور معیشت کے بھی مسائل ہیں جبکہ ہم یہ بھی نہیں طے کر پا رہے کہ ہمیں کس کیمپ میں جانا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ابہام ہے، ایک طرف چین کے ساتھ دوستی کے قصیدے سنائے جاتے ہیں تو اب امریکہ کے ساتھ قربتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی خارجہ اور داخلی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے کر آگے بڑھنا ہو گا۔

عامر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان کو بھی انڈیا کے آئینے سے ہی دیکھتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ مشرقی سرحد سے اگر جنگ مغربی سرحد پر جاتی ہے تو اس کے تانے بانے بھی انڈیا سے ہی ملتے ہیں۔

اُن کے بقول افغان وزیر خارجہ کے انڈیا کے دورے نے حالات کو مزید خراب کیا۔

ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ افغان طالبان سے متعلق پاکستان کی توقعات پوری نہ ہونے پر اب وہ طالبان حکومت پر سیاسی اور عسکری دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US