اسرائیلی فوج کو غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس نے جن پہلے چار مغویوں کی لاشیں واپس کی ہیں ان میں بپن جوشی کی لاش کی شناخت کی جا چکی ہے۔سات اکتوبر 2023 کو یرغمال بنائے جانے سے پہلے بپن جوشی نے اپنے ایک دوست دھن بہادر چوہدری کی جان اس وقت بچائی جب حماس نے ایک دستی بم سے حملہ کیا تھا۔
دھن بہادر چودھری (بائیں) اور بپن جوشی نیپال کی فار ایسٹرن یونیورسٹی کی ایک تصویر نیپالی شہری بپن جوشی بھی ان 250 کے قریب یرغمالیوں میں شامل تھے جنھیں دو سال قبلسات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے یرغمالی بنایا تھا۔
اسرائیلی فوج کو غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس نے جن پہلے چار مغویوں کی لاشیں واپس کی ہیں ان میں سے بپن جوشی کی لاش کی شناخت کی جا چکی ہے۔
سات اکتوبر2023 کو یرغمال بنائے جانے سے پہلے بپن جوشی نے اپنے ایک دوست دھن بہادر چوہدری کی جان اس وقت بچائی جب حماس نے دستی بموں سے حملہ کیا تھا۔
دھن بہادر چوہدری نے بی بی سی نیپالی کو اس روز کے واقعے کی مکمل تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اگر دستی بم پھٹ جاتا تو شاید میں زندہ نہ بچ پاتا۔ بپن نے ہمت دکھائی اور دستی بم باہر پھینک دیا۔‘
نیپال سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ بپن جوشی کو سات اکتوبر 2023 کو حماس نے 250 دیگر افراد کے ساتھ اس وقت یرغمال بنا لیا تھا جب وہ اسرائیل کے علاقے كيبوتس میں موجود تھے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ بپن جوشی کی موت کب اور کیسے ہوئی۔ ان کے خاندان کے افراد اور دوست آخری لمحے تک پر امید تھے کہ بپن 13 اکتوبر کو زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں میں شامل ہوں گے تاہم ایسا نہ ہو سکا۔
حماس کے حملے سے 30 منٹ قبل بنکر کے اندر لی گئی یہ سیلفی ہلاک ہونے والوں میں سے ایک نے لی تھیبپن اور ان کے دوست اسرائیل کیوں گئے تھے؟
23 سالہ بپن ، دھن بہادر اور دیگر 15 طالب علم تقریباً تین ہفتوں سے اسرائیل میں تھے جب حماس کا حملہ كيبوتس الوميم پر ہوا۔ یہ تمام طالب علم اسرائیل زرعی سائنس پڑھنے گئے تھے۔
دھن بہادر نے بتایا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ اسرائیل میں کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے، لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی زمینی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ہم نے سوچا کہ وہاں میزائل حملے ہو سکتے ہیں اور اگر ہم زیر زمین بنکروں میں رہیں گے تو ہم محفوظ رہیں گے۔‘
ان طلبا کو اسرائیلی حکومت کے ’کمائیں اور سیکھیں پروگرام‘ میں مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی بہتر زندگی کے لیے کام سیکھیں۔ دھن بھادر سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملوں میں جان بچانے کا سہرا اپنے دوست بپن کی بہادری کو دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’حملے کے دوران دو دستی بم بنکروں کے قریب پھینکے گئےتاہم بپن نے ان میں سے ایک کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ باقی گرنیڈ اندر پھٹ گیا جس سے میں اور چار دیگر زخمی ہو گئے۔‘
دھن بہادر نے کہا کہ ’اس وقت بپن محفوظ تھے۔ اگر دونوں بم پھٹ جاتے تو شاید میں آج بات کرنے کے لیے زندہ نہ ہوتا۔‘
’بپن کی موت سے پورا نیپال سوگ میں ڈوبا ہوا ہے‘
اس حملے میں 10 نیپالی طالب علم مارے گئے تھے جبکہ بپن کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔
دھن بہادر نے بتایا کہ ’ہم آخری بار اس وقت ملے تھے جب وہ اور ہمارے باقی ساتھیوں کو دوسرے بنکر میں بھیجا جا رہا تھا۔ چونکہ میں زخمی تھا اور چلنے کے قابل نہیں تھا، اس لیے میں پہلے بنکر میں ہی ٹھہرا تھا۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جس بنکر میں گئے اس پر دوبارہ حملہ کیا گیا اور وہاں سے انھیں یرغمال بنا لیا گیا۔‘
27 سالہ دھن بہادر اپنے دوست کی موت کی خبر سے بہت افسردہ ہیں۔ انھوں نے بپن کے ساتھ نیپال کے ٹیکا پور میں فار ویسٹرن یونیورسٹی کے سکول آف ایگریکلچر میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے بپن کی رہائی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہمیں یہ افسوسناک خبر ملی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پورا نیپال سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا کہوں۔ میرے پاس اپنے غم کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘
دھن بہادر کا کہنا ہے کہ بپن اور ان کے دیگر دوستوں کا ایک ہی خواب تھا کہ کچھ پیسے بچائیں اور واپس آنے کے بعد اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کریں۔
دھن بہادر کا کہنا ہے کہ ’بپن کو فٹ بال اور باسکٹ بال کھیلنا پسند تھا۔ ہم اپنے خوابوں اور مستقبل کے بارے میں بات کرنے میں گھنٹوں گزارتے تھے۔ وہ فٹ رہنا چاہتا تھا اور نیا موبائل فون خریدنے کا سوچ رہا تھا۔ ہم نے اپنے فون پر دوستی پر ایک گانا بھی ریکارڈ کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ وہ ایک میوزک ویڈیو میں نظر آنا چاہتا ہے۔‘
بپن اور دھن بہادر کی اپنے اسرائیلی دوستوں کے ساتھ باسکٹ بال کورٹ پر آخری سیلفیآخری سیلفی
اسرائیلی فوج کا خیال ہے کہ بپن جوشی جنگ کے ابتدائی مہینوں میں اسیری کے دوران مارے گئے تھے۔ تاہم اسرائیلی فوج کے اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
دھن بہادر کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو عالمی برادری کو حماس سے سوال کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ زخمی ہونے کے بعد انھیں نیپال حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ دھن بھادر نے اس امید کا اظہار کیا کہ اسرائیلی حکومت بپن کے خاندان کی مدد ضرور کرے گی۔
بپن کے اہل خانہ نے ابھی تک اس پورے معاملے پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
سات اکتوبرکی ویڈیو فوٹیج میں بپن کو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے اندر چہل قدمی کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کا خاندان ایک سال تک خاموش رہا۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج نے انھیں ایک ویڈیو بھیجی جس میں بپن کو قید میں دکھایا گیا تھا۔ یہ ویڈیو تقریباً نومبر 2023 کی بتائی جاتی ہے۔ بپن کے خاندان نے اس کلپ کو شیئر کرنے کی اجازت ملنے کے بعد گذشتہ ہفتے اسے جاری کیا۔
بپن کے خاندان نے ویڈیو کو ’زندگی کا ثبوت‘ کے طور پر پیش کیا تھا اور جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان سے چند گھنٹے قبل تک وہ کسی معجزے کی امید کر رہے تھے۔ اب ان کی موت کی خبر سن کر بپن کا خاندان گہرے صدمے میں ہے۔
یرغمالی بنائے جانے والے بپن جوشی اور گائے الوز (دائیں) کی لاشیں پیر کو حماس نے اسرائیل کے حوالے کیںنیپال کی وزارت خارجہ نے کیا کہا؟
بپن جوشی کے کزن کشور جوشی نے بی بی سی نیپالی کو بتایا کہ ان کی والدہ اور بہن یرغمالیوں کی رہائی کی اپیل کرنے امریکہ گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خاندان کے پاس اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ بپن کی والدہ اور بہن جمعرات کو امریکہ سے واپس آرہی ہیں۔ والد اس قدر غمزدہ ہیں کہ وہ اپنے دکھ کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔‘
دوسری جانب یہ واضح نہیں ہے کہ بپن کی لاش ان کے خاندان کے حوالے کب کی جائے گی۔ نیپال کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت ان کا جسد خاکی نیپال لانے کی تیاری کر رہی ہے جیسا کہ انھوں نے دیگر ہلاک ہونے والے طالب علموں کے لیے کیا تھا۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمیں بپن جوشی کے مرنے کی خبر سے گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ ہم غم کی اس گھڑی میں خاندان کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’بپن جوشی کی لاش کو نیپال واپس لانے کے بعد بھی ہم ان کی موت کی اصل وجہ اور حالات کا پتہ لگانے کے لیے متعلقہ حکومتی ایجنسیوں اور جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کے لیے تمام کوششیں جاری رکھیں گے۔‘
دھن بہادر نے کہا کہ اسرائیل سے بحفاظت واپس آنے کے بعد وہ اور ان کے ساتھی طالب علم بپن کے خاندان سے ملنے کنچن پور ضلع جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ہم ان کے خاندان کو اپنی مدد، دیکھ بھال اور تسلی دیں گے۔‘
دھن بہادر نے کہا کہ ’میں نیپال واپس آ گیا ہوں اور تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ لیکن بپن کے خواب ادھورے رہ گئے۔‘