بلوچستان میں ہلالِ احمر نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے پانچ شہریوں اور دو ایف سی اہلکاروں کی لاشیں افغانستان نے ان کے حوالے کر دی تھیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ہفتے بدھ کو چمن اور سپین بولدک میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے سات افراد کی لاشیں جمعرات کو پاکستان کے حوالے کی گئیں تھیں، جن کی نماز جنازہ چمن میں ان کے آبائی علاقوں میں ادا کر دی گئی ہے۔
بلوچستان میں ہلالِ احمر نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے پانچ شہریوں اور دو ایف سی اہلکاروں کی لاشیں افغانستان نے ان کے حوالے کر دی تھیں۔
ہلالِ احمر کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کے دوران ہلاک ہونے والے پانچ شہریوں کی لاشیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز چمن جبکہ دو سکیورٹی اہلکاروں کی لاشیں ایف سی ہیڈ کوارٹرز منتقل کی گئی تھیں۔
چمن میں ڈسٹرکٹ ہسپتال کی انتظامیہ نے بھی بی بی سی کو پانچ لاشیں موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے انھیں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام افراد سپین بولدک میں ہلاک ہوئے ہیں۔
خیال رہے رواں ہفتے منگل اور بدھ کو سرحدی علاقوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آئی تھیں۔ تاہم بدھ کی شام کو دونوں ممالک نے 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تاہم جمعے کی ب افغانستان میں طالبان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے اس کے سرحدی صوبے پکتیکا میں بمباری کی ہے اور جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

ہلالِ احمر کے پاس کیا معلومات موجود ہیں؟
بلوچستان میں ہلالِ احمر کے سربراہ عبدالولی خان غبیزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ افغانستان میں ریڈ کراس نے ان سے رابطہ قائم کیا تھا اور بتایا کہ ان کے پاس سات لاشیں ہیں اور ان کو پاکستان پہنچانا ہے۔
’اس اطلاع پر ہمارا عملہ فوراً پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع باب دوستی پہنچا، جہاں ریڈ کراس افغانستان نے ہلالِ احمر کے حوالے سات لاشیں کی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان میں دو ایف سیاہلکاروں کی لاشیں بھی شامل تھیں جنھیں ایف سی ہیڈ کوارٹر پہنچایا گیا ہے۔
ہلالِ احمر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ان ایف سی اہلکاروں کے جسم پر تشدد کے غیر معمولی نشانات موجود تھے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ وہی اہلکار تھے جن کی لاشوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔‘
بی بی سی ان کے دعوؤں کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
تادمِ تحریر ایف سی یا کسی اور سرکاری ادارے نے ان ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کی سرکاری سطحپر تصدیق نہیں کی ہے۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ ہسپتال چمن کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اویس کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں لائی گئی پانچ لاشوں میں سے ایک کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے جبکہ چار دیگر شہری گولہ بارود کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں۔
حالیہ جھڑپوں میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچانے کے دعوے کیے ہیں۔ تاہماقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان یوناما کے مطابق ان کے پاس افغانستان کے سرحدی علاقے سپین بولدک میں 17 عام شہریوں کی ہلاکت اور 364 کے زخمی ہونے کی اطلاعات موجود ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں مزدوروں کی تنظیم ’لغڑی اتحاد‘ کے صدر صادق اچکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ سپین بولدک میں چمن سے تعلق رکھنے والے 11 پاکستانی شہری مارے گئے ہیں، جن میں سے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد بھیشامل ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کے دوران سرحدی علاقے میں کیا ہوا؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جھڑپوں میں چمن کے شہری کمانڈر عبدالوزیر کے بھی دو کزن ہلاک ہوئے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں روزی خان کے سوگواروں میں تین بچے اور بیوہ، جبکہ نصیب اللہ کے سوگواروں میں بھی تین بچے اور بیوہ شامل ہیں۔
عبدالوزیر کا کہنا ہے کہ ان کے دونوں کزن گھوڑا گاڑی چلاتے تھے اور پاکستان سے عموماً مویشیوں کے لیے چارہ لے کر افغانستان کے سرحدی علاقے سپین بولدک جاتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’عموماً اس طرح ہوتا کہ یہ دونوں دن میں ہی چمن واپس آجاتے تھے مگر کبھی کبھار انھیں افغانستان میں بھی رات گزارنا پڑتی تھی۔‘
چمن کے شہری کا کہنا ہے کہ 14 اکتوبر کو معمول کے مطابق ان کے دونوں کزن افغانستان گئے تھے اور انھیں وہاں رات کورُکنا پڑا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’وہاں پر یہ تقریباً سو سے زائد دیگر پاکستانی مزدوروں کے ساتھ تھے۔ مجھے ان کے ساتھ موجود لوگوں نے بتایا کہ 15 تاریخ کو اچانک زوردار دھماکوں کی آوزیں آئیں، جس پر روزی خان باہر گیا کہ دیکھے کیا ہوا اور اس دوران اسے گولی لگ گئی۔‘
’اس کے بعد وہاں پر مارٹر گولہ فائر ہوا تو اس سے وہاں روزی خان اور نصیب اللہ کے علاوہ دیگر پاکستانی مزدور بھی ہلاک ہوئے۔‘
کمانڈر عبدالوزیر نے تصدیق کی کہ ان کے دونوں کزنز کی لاشیں 16 اکتوبر کو ان کے خاندان کے پاس پہنچی ہیں، جس کے بعد دونوں کی تدفین کر دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد لاشیں ملنے میں بہت تاخیر ہوئی تھی۔ ہمیں16 تاریخ کو دوپہر کے بعد لاشیں ملی ہیں جس کے بعد ان کی تدفین کی گئی ہے۔
سپین بولدک میں ہلاک ہونے والے افراد میں چمن کے شہری محمد اصغر بھی شامل ہیں جو کہ افغانستان کے علاقے سپین بولدک میں ایک کار شو روم پر کام کرتے تھے۔
محمد اصغر کے چچا شیر علی کا کہنا تھا کہ 20 سالہ محمد اصغر افغانستان کے علاقے میں گولہ بارود کی زد میں آ گئے تھے۔
’محمد اصغر محنت مزدوری کرنے گیا تھا۔ وہ اپنے ماں اور باپ کا سہارا تھا اور اس وقت وہ غم سے نڈھال ہیں۔‘
مزدوروں کے پاس پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی: مزدور تنظیم کے دعوے
مزدوروں کی تنظیم لغڑی اتحاد کے صدر صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے صرف پانچ افراد کی لاشیں ہسپتال میں پہنچائی گئی ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے دیگر افراد کی لاشیں براہ راست ان کے علاقوں میں جنگ بندی کے بعد پہنچا دی گئی تھیں۔
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’ہلاک ہونے والے تمام افراد مزدور ہیں جو کہ سپین بولدک مزدوری کرنے جاتے تھے۔‘
بی بی سی ان کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
صادق اچکزئی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سات پاکستانی مرد، ایک خاتون اور تین بچے شامل ہیں۔ جس میں ایک ہی خاندان کے میاں بیوی اور پانچ بچے ہیں۔ یہ لوگ افغانستان کے علاقے میں کرایہ پر گھر حاصل کرکے وہاں پر کاروبار کرتے تھے۔
’جب گولہ باری ہوئی تو افغانستان میں موجود پاکستانی مزدور بھی اس کی زد میں آ گئے۔ مزدور سب سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔‘
’ان میں زیادہ تر لوگ وہ تھے جو سرحد کے آر پار گھوڑا گاڑی چلاتے تھے اور سرحد بند ہونے کے بعد افغانستان کی حدود میں پھنس گئے تھے۔‘
’دونوں ممالک دشمنی ختم کریں‘
مزدور تنظیم کے صدر صادق اچکزئی کے مطابق افغانستان میں ’اس وقت بھی بڑی تعداد میں پاکستانی شہری پھنسے ہوئے ہیں جو کہ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے سفر نہیں کر پا رہے۔ یہ سب وہ شہری ہیں جنکے پاس چمن کا شہری ہونے کے ناتے افغانستان کی حدود میں داخلے کا سرکاری اجازت نامہ وجود ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب چمن میں بھی افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنھیں بنیای اشیائے ضرورت کی قلت کا سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور افغانستان میں تصادم کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، اس سے دونوں ملکوں کے عام شہری جو کہ آپس میں رشتہ دار بھی ہیں ان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس لیے دونوں ممالک اس دشمنی کو ختم کریں اور عالمی اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔‘