خزانے کو ’سونے کے سکّوں‘ سے خالی کرنے اور طیارہ گرانے کا الزام: کیا ایران کے سابق صدر حسن روحانی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ پائیں گے؟

ان دنوں حسن روحانی کے خلاف جو خبریں سامنے آ رہی ہیں وہ گویا قدامت پسند اخباروں جیسے کیہان اور روحانی مخالف حلقوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان خبروں اور تجزیوں کی اشاعت ایک منظم اور باقاعدہ مہم کا حصہ ہے۔
حسن روحانی
TASNIM

حالیہ دنوں میں ایران کے اندر اور باہر سے ملک کے سابق صدر حسن روحانی پر تنقید کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔

کبھی ایرانی سیاستدان سعید جلیلی انھیں مناظرے کا چیلینج کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی علی شمخانی (ایران سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سابق سیکریٹری) یہ الزام لگاتے ہیں کہ یوکرینی طیارہ گرانے کے واقعے میں حسن روحانی ملوث تھے اور انھوں نے اس حقیقت کو چھپایا۔

پھر روس کے وزیرِ خارجہ سنیپ بیک کا معاملہ اٹھا دیتے ہیں اور جوہری معاہدے (JCPOA) میں اس شق کے شامل ہونے کا ذمہ دار بھی روحانی کو ٹھہراتے ہیں۔

اس کے بعد ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ کا یہ دعویٰ سامنے آتا ہے کہ روحانی نے خزانے کو ’سونے کے سکّوں‘ سے خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔

ان دنوں حسن روحانی کے خلاف جو خبریں سامنے آ رہی ہیں وہ گویا قدامت پسند اخباروں جیسے کیہان اور روحانی مخالف حلقوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان خبروں اور تجزیوں کی اشاعت ایک منظم اور باقاعدہ مہم کا حصہ ہے۔

اخبار کیہان نے اپنی ہیڈ لائن حسن روحانی کے نام کر دی اور حالیہ دنوں میں ایک بار پھر عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ’حسن روحانی کے کارناموں کی فہرست‘ کی تحقیقات کرے۔

اخبار نے روحانی پر الزام لگایا کہ انھوں نے اپنی صدارت کے دوران ملک کے 30 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر اور 60 ٹن سونے کے ذخائر ضائع کیے۔

کیہان کے مطابق ’حسن روحانی کی جانب سے قومی حقوق کے ضیاع کے شواہد بالکل واضح ہیں اور یہ معاملہ بند ہونے کے بجائے نئے پہلوؤں اختیار کر رہا ہے۔‘

حسن روحانی کی حکومت میں مرکزی بینک کے گورنر ولی اللہ سیف نے حال ہی میں ویب سائٹ ’انتخاب‘ کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ روحانی نے اپنی صدارت کے آخری دو برس میں انھیں ہدایت دی تھی کہ ’بغیر کسی رکاوٹ اور ضابطہ قانون کے سونے کی سکوں کی فراہمی اور فروخت کو یقینی بنایا جائے‘ اور وہ اس بات پر بالکل بے پروا تھے کہ ملک کے اندر سونے کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔

ولی اللہ سیف کے مطابق حسن روحانی نے اس وقت کہا تھا کہ ’میں اپنی مدتِ صدارت کا خود ذمہ دار ہوں۔‘

ایران اسرائیل جنگ
Getty Images

اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد حسن روحانی کی سیاسی پوزیشن اور مذاکرات پر ان کا زور حکومت اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلی کے بیانات سے مزید اختلافات کی عکاسی کرتا ہے۔

حسن روحانی نے سابق گورنروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ قوم اس 12 روزہ جنگ میں اپنی بھرپور حمایت اور طاقت سے ایران کے ساتھ کھڑی ہے، حکمرانوں کے ساتھ نہیں۔‘

حسن روحانی اب بھی خود کو نظام کے حصے میں شمار کرتے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں انھوں نے جوہری پروگرام کے بارے میں بحث کے لیے سعید جلیلی کے بیانات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ حسن روحانی کو ’خادم یا غدار‘ قرار دیا گیا ہو۔ گزشتہ برسوں میں جوہری معاہدہ (JCPOA) وہ مرکزی نکتہ رہا ہے جس پر ان کے حامیوں اور مخالفین میں بار بار اختلاف سامنے آیا۔

ایسا ہی ایک واقعہ 9 مئی 2018 میں پیش آیا جب امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ جے سی پی او اے ختم کر دیا تھا۔

اس روز ایرانی پارلیمان کے قدامت پسند اراکین نے امریکی پرچم اور جوہری معاہدے کی دستاویز کو ایوان میں علامتی طور پر جلا دیا۔

اسی سال دو جون 2018 کو آیت اللہ علی خامنہ ای نے حکومتی عہدیداروں سے ملاقات میں ہدایت کی کہ وہ جوہری معاہدے کے معاملے پر ’تقسیم اور دو مخالف نظریات پیدا کرنے سے گریز کریں۔‘

یہ وہ وقت تھا جب حسن روحانی کی حکومت برسرِ اقتدار تھی اور آیت اللہ خامنہ ای فکری اختلافات کے باوجود انتہا پسند حلقوں کو قابو میں رکھنے پر مجبور دکھائی دیتے تھے۔

کئی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 2018 کے بعد سے ایران کی سیاسی فضا اور حسن روحانی کے مقام میں خاصی تبدیلی آ گئی ہے۔

تجزیہ کار مصطفی دانشگر کے مطابق آج کی صورتحال اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران کے سیاسی مستقبل سے ’حسن روحانی کوحتمی طور پر باہر نکال دینے‘ کے لیے ماحول سازگار بنا دیا گیا۔

دانشگر کےمطابق آیت اللہ خامنہ ای اب حسن روحانی جیسے افراد کو طاقت کے اندرونی توازن اور حکومتی ہم آہنگی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

بی بی سی فارسی کو دیے گئے انٹرویو میں مصطفی دانشگر نے کہا کہ ’اگر 2015 میں آیت اللہ خامنہ ای نے جوہری معاہدے پر رضامندی دی تھی تو اس وقت وہ ملک کے خالی خزانے کی وجہ سے ایک مجبوری تھی۔‘

تاہم ان کے بقول آج جو کشمکش ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔

’موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ اور خود آیت اللہ خامنہ ای مغرب سے تعلقات کے رجحان اور خاص طور پر حسن روحانی جیسے افراد کو سیاسی منظرنامے سے ہٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ایران اسرائیل جنگ کے بعد مغرب نواز حلقے دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں۔‘

یاد رہے کہ 2013 میں حسن روحانی کی حکومت کے آغاز میں جب ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات میں بہتری کی امیدیں پیدا ہو رہی تھیں، تو آیت اللہ علی خامنہ ای نے حکومتی اور سفارتی اہلکاروں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مغرب کے طرزِ عمل کا تجزیہ ’اسلام کے خلاف مغرب کی گہری اور بنیادی دشمنی‘ کے تناظر میں کریں۔

انھوں نے خبردار کیا تھا کہ ’اگر ہم نے گہری نظر نہ رکھی، تو ہمیں دھوکہ دیا جائے گا اور ہم نقصان اٹھائیں گے۔‘

 سعید جلیلی کا شیراز میڈیکل اسکول کے طلبا کے ایک گروپ سے خطاب
IRIB
سعید جلیلی کا شیراز میڈیکل سکول کے طلبا کے ایک گروپ سے خطاب

جے سی پی او اے کا خاتمہ اور موجودہ بحث

12 روزہ جنگ کے اثرات تقریباً چار ماہ بعد بھی ابھی باقی ہیں اور ملک میں ’نہ جنگ، نہ امن‘ کی کیفیت جاری ہے۔

اس ماحول میں ایرانی حکام مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی واپسی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ عوام کو اس نفسیاتی دباؤ سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مارکیٹ اور ملکی سیاست میں افراتفری نہ پھیلے مگر اس کے باوجود اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، قومی کرنسی کی قدر میں کمی اور حکومت کی داخلی معاملات پر غیر یقینی اور کنفیوژن نے عوام کی توجہ ایک بار پھر خارجہ پالیسی، خاص طور پر جوہری مذاکرات اور جے سی پی او اے کے خاتمے پر مرکوز کر دی ہے۔

جے سی پی او اے ختم ہونے پر گرما گرم بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب حسن روحانی کی طلبہ کے سامنے مناظرے کے لیے بحث کی پرانی پیشکش کو ایک سال بعد سعید جلیلی نے قبول کر لیا۔

انھوں نے روحانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہا کہ ’آج ایک سکول کا بچہ جس نے محض ایک بار خبریں دیکھی ہوں اور روحانی کے بیانات سنے ہوں، وہ بھی مناظرے میں روحانی کو غلط ثابت کر دے گا۔‘

ایرانی رہبرِ اعلیٰ کے قومی سلامتی کونسل میں موجود دو نمائندوں میں سے ایک سعید جلیلی ہیں جو جوہری معاہدے کے سخت ناقد ہیں۔

وہ جے سی پی او اے کی شرائط، مذاکراتی ٹیم، اور خود حسن روحانی پر بارہا تنقید کر چکے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخاب میں جب وہ مسعود پزیشکیان کے مدِمقابل امیدوار تھے۔ انھوں نے اس دوران بھی حسن روحانی کی حکومت کو بارہا تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس کے جواب میں حسن روحانی نے سعید جلیلی کو براہِ راست مناظرے کی دعوت دی۔

اگست 2018 کو حسن روحانی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’سعید جلیلی نے بطورِ مذاکرات کار ملک کو چھ سال میں 700 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا اور صرف پچھلے تین سال میں 300 ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ اگر ان میں ہمت ہے، تو وہ میرے ساتھ مناظرہ کریں۔‘

یاد رہے کہ حسن روحانی اور سعید جلیلی کے درمیان کشیدگی نئی بات نہیں۔ دونوں کے درمیان براہِ راست ٹکراؤ 2013 کے صدارتی انتخابات کے دوران سامنے آیا جب انھوں نے اپنے خطاب میں بارہا ایک دوسرے کی جوہری پالیسیوں کو چیلنج کیا تھا۔

2003 میں جب حسن روحانی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری تھے تو انھیں آیت اللہ خامنہ ای کی ہدایت اور اُس وقت کے صدر محمد خاتمی کے حکم پر ایران کے جوہری معاملے کا انچارج بنایا گیا۔

حسن روحانی
ROUHANIHASSAN
اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد حسن روحانی کی سیاسی پوزیشن اور مذاکرات پر زور حکومت کے ساتھ ان کے مزید اختلافات کی عکاسی کرتا ہے

حسن روحانی کے بقول آیت اللہ خامنہ ای نے ان سے کہا تھا کہ ’نظام کا ایک بوجھ ہلکا کرو۔‘

اور اسی کے نتیجے میں تہران اور تین یورپی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے ’سعدآباد اعلامیہ‘ پر دستخط ہوئے تھے۔

یہ معاہدہ بین الاقوامی ایٹمی ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ ایران کے تنازعات کم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

مگر جب محمود احمدی نژاد کی حکومت آئی تو خود حسن روحانی نے کہا تھا کہ ’جوہری ٹرین کی بریکس پٹری سے اتر گئیں۔‘

اسی دور میں سعید جلیلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری اور جوہری مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بنے اور یہ ذمہ داری چھ سال تک سنبھالی۔

ان برسوں میں سعید جلیلی نے نہ صرف جے سی پی او اے بلکہ سعدآباد معاہدے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور حسن روحانی کو ایران کے جوہری مسائل کا بانی قرار دیا۔

اس کے برعکس حسن روحانی کا مؤقف رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی وہ قراردادیں، جو ایران کے خلاف ان برسوں میں منظور ہوئیں وہ سب سعید جلیلی کی پالیسیوں کا نتیجہ تھیں۔

روحانی اور جلیلی کی گرما گرم بحث کے پیچھے محرکات

20 جون 2021 کو پاسدارانِ انقلاب کے قریب سمجھی جانے والی تسنیم نیوز ایجنسی نے ایک مبہم اور طنزیہ مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا کہ ’مشکوک عناصر کی جانب سے نیتن یاہو کے لیے مصنوعی تنفس‘

اس مضمون میں لکھا گیا کہ ’قابلِ اعتماد ذرائع کے مطابق چند مشکوک اور بدنام عناصر بعض علمائے قم کو سامنے لا کر صہیونی ریاست کے ساتھ مصالحت اور سرینڈر کی بات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

تسنیم نیوز ایجنسی نے اس اقدام کو ’غداری پر مبنی حرکت‘ قرار دیا اور بغیر کسی کا نام لیے کہا کہ ’یہ لوگ ملک کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کو اس غداری کی قیادت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن اس عہدیدار نے اب تک کوئی ردِعمل نہیں دیا۔‘

مضمون کے بعد نہ تو تسنیم نیوز ایجنسی نے اسے رد کیا اور نہ ہی کوئی وضاحت دی گئی جس کے بعد سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ جس ’سابق عہدیدار‘ کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے وہ ممکنہ طور پر حسن روحانی ہیں۔

حمید آصفی اور مصطفی دانشگر سمیت متعدد ایرانی اور غیر ملکی تجزیہ کاروں کے مطابق حسن روحانی پر بڑھتی ہوئی تنقید کی ایک وجہ ان کے حالیہ بیانات اور قم کے بعض مذہبی علما سے کی جانے والی ممکنہ ملاقاتیں ہیں۔

اگرچہ روحانی کے قم جانے کی کوئی سرکاری رپورٹ موجود نہیں اور نہ ہی ان کی ویب سائٹ یا قریبی ذرائع نے اس کی تصدیق یا تردید کی مگر غیر رسمی اطلاعات کے مطابق وہ 12 روزہ جنگ کے دوران قم گئے اور وہاں آیت اللہ حسین وحید خراسانی اور آیت اللہ موسیٰ شبّیری زنجانی سمیت چند متعدد مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔

بی بی سی فارسی سے گفتگو میں حمید آصفی نے کہا کہ کہ ’سیاسی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل ممکنہ طور پر ایران کے کچھ اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس خدشے نے ایک ممکنہ طاقت کے خلا کا خوف پیدا کیا اور اسی وجہ سے روحانی قم گئے تاکہ مذہبی سکالرز سے مشاورت کر سکیں۔‘

ان کے بقول اُس وقت عبوری حکومت کے قیام کی باتیں بھی ہو رہی تھیں اور یہی معاملہ تسنیم نیوز ایجنسی کے سخت ردِعمل کا باعث بنا۔

حمید آصفی کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں جب بیرونِ ملک کوئی منظم حزب اختلاف موجود نہیں، حسن روحانی آئندہ کے ممکنہ سیاسی منظرنامے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ان کے مطابق حسن روحانی مغرب سے مذاکرات کی صلاحیت رکھنے والے اور مغربی دنیا کے لیے مانوس چہرے ہیں جو یورپی ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں نرمی لا سکتے ہیں۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار مصطفی دانشگر نے بی بی سی فارسی سے گفتگو میں کہا کہ ’ جے سی پی او اے دراصل ایک بڑے کھیل کا حصہ ہے۔ ایک دوسری جنگ کے امکانات تاحال موجود ہیں اور ایسے حالات میں آیت اللہ خامنہ ای کو وہ اصلاح پسند زیادہ قابلِ قبول ہیں جو طاقت کا حصول چاہتے ہیں مگر ان کی مزاحمتی پالیسیوں کے ہم آہنگ ہیں۔‘

’ان کے نزدیک حسن روحانی جیسے افراد جو طاقت کے ڈھانچے سے باہر ہیں وہ ایک دو مخالف گروہوں کی فضا پیدا کرتے ہیں اور یہی ماحول خامنہ ای کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ہے کیونکہ اس سے روحانی کو کنارے لگانا آسان ہو جاتا ہے خاص طور پر اگلے رہبر کے انتخاب کے عمل میں۔‘

مصطفی دانشگر نے سیعد جلیلی کے کردار پر بھی تنقید کی۔

’سعید جلیلی کا کردار آج تقریباً وہی ہے جو محمود احمدی نژاد کا کبھی تھا۔ یعنی ایک ایسا شخص جو خاموشی سے آیت اللہ خامنہ ای کے پرانے حریفوں کو منظر سے ہٹانے کا ذریعہ بن گیا۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’آج جلیلی بھی چاہے شعوری طور پر یا غیر ارادی طور پر حسن روحانی کے خاتمے کے لیے ایک آلہ بن چکے ہیں۔‘

دانشگر مزید کہتے ہیں کہ روحانی اور جلیلی کے درمیان اختلافات قومی سلامتی کونسل کے دنوں سے پہلے کے ہیں اور اب آیت اللہ خامنہ ای نے جلیلی کو پھر سے میدان میں اتار دیا ہے۔

’سعید جلیلی اس وقت بھرپور سیاسی محرک رکھتے ہیں اور شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جنگ دوبارہ چھڑ گئی اور حالات بدل گئے تو انھیں اقتدار میں آنے کا موقع مل سکتا ہے۔‘

’بیکار کی گرما گرمی‘ پر مبنی اخباری ردِعمل

اگرچہ محمود احمدی نژاد نے حسن روحانی کے ساتھ مباحثے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان بھی کیا تھا تاہم میڈیا کی توجہ فی الحال جوہری معاملے پر دو سابق حکام کے درمیان ہونے والی ممکنہ بحث پر مرکوز ہے۔

حالیہ ہفتوں میں سیاسی کارکنوں سے لیکر ذرائع ابلاغ تک ہر ایک نے اپنے سیاسی رجحان کے مطابق جوہری کیس میں ملوث افراد کے ’عدالتی ٹرائل‘ کی بات کی۔

متعدد خبر رساں ایجنسیوں، نیوز سائٹس اور طلبہ کے گروپوں نے بھی سعید جلیلی اور حسن روحانی کے درمیان مباحثے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا اور اس میں اسے ’بلی اور چوہے کا کھیل‘ کہہ کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایران کی مہر خبر رساں ایجنسی نے مغرب کے ساتھ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دو متضاد نظریات کی موجودگی پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ ’روحانی اور جلیلی کے درمیان بحث نہ تو تفرقہ انگیز ہے اور نہ ہی وقت کا ضیاع بلکہ یہ ایک تاریخی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے اس موقع کو گنوا دیا تو کل ہمیں صرف بے حسی پر مبنی سوالات کے جوابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

اس کے برعکس تجزیاتی نیوز سائٹ روائیداد 24 نے سعید جلیلی اور حسن روحانی مباحثے کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ کے رہنما کا نام لیے بغیر لکھا کہ ’خواہ حسن روحانی ہوں یا سعید جلیلی، دونوں کو خارجہ پالیسی میں حقائق کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اس سلسلے میں بڑے اور حتمی فیصلے ’خودمختاری‘ کے ذریعے کیے گئے تھے نہ کہ عہدوں کے تناظر میں۔ تاریخ ساز اور حتمی فیصلہ ساز بننے کے لیے اختیارات کی سطح اور حد معنی نہیں رکھتی‘۔

مختلف سیاسی جھکاؤ رکھنے والے اخبارات نے بھی اس بحث کا خیرمقدم نہیں کیا اور اس کا انعقاد نامناسب سمجھا۔

اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی تقسیم اور دو مخالف گروہوں کے ماحول میں اضافہ ہوا۔

اصلاح پسند اخبار حمیہان نے اس بحث کو ’میڈیا اور سیاسی تنازع‘ قرار دیا۔ ’گرم اور بیکار بحث‘ کے عنوان سے حمیحان ​​نے لکھا کہ ’جلیلی روحانی کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے سعد آباد میں معطلی کو قبول کیا کہ آپ نے جے سی پی او اے کے ساتھ اس قوم کی جوہری کامیابیوں کو تباہ کر دیا۔ روحانی نے جلیلی کو یہ بھی کہا کہ آپ نے ملک کو سلامتی کے معاملے میں شامل کیا اور ایران کا معاملہ سلامتی کونسل میں لے گئے،‘

حمیہان نے لکھا کہ ’آپ نے جوہری ڈیل اور جوہری معاہدے کے ذریعے اس ملک کو تباہ کیا۔ روحانی جب بھی بولتے ہیں اس میں وہ دیکھا، میں نے آپ کو کیا بتایا، اور میں آپ کو بتاؤں گا‘ جیسے جملوں کا سہارا لیتے ہیں۔

قدامت پسند اخبار جاون نے بھی ’ایسا نہ کریں‘ کے عنوان سے ایک شہ سرخی شائع کی جس میں حسن روحانی اور سعید جلیلی پر قومی اتحاد کے خلاف کام کرنے کا الزام لگایا اور لکھا ’کوئی بھی آپ کی بحث کا انتظار نہیں کر رہا۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کی چاپلوسی میں مت آئیں۔‘

حسن روحانی آخری پڑاؤ پر

حسن روحانی
AFP

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت سکیورٹی، اقتصادی، سیاسی اور بیرونی بحرانوں اور مسائل کے سلسلوں میں پھنسا ہوا ہے۔

ان بحرانوں کے علاوہ 12 روزہ جنگ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کی جانشینی کا معاملہ مزید گرم ہو گیا اور بعض ملکی شخصیات جنگ کے نئے دور کے امکان اور خامنہ ای کی جان کو لاحق خطرے کی بات کر رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایران میں حالات یقینی طور پر معمول کے مطابق نہیں۔

سیاسی تجزیہ کار حامد آصفی کے مطابق جنگ نہ ہونے کی صورت میں بھی خامنہ ای کے جانشین کا معاملہ بہت اہم ہو گا۔ ان کی رائے میں حسن روحانی جیسے لوگ سٹیج چھوڑنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ خود کو انقلاب کا مالک سمجھتے ہیں۔

حامد آصفی کا خیال ہے کہ رہبر اعلی خامنہ ای کی موت کے ساتھ ہی ملک کے حالات یکسر بدل جائیں گے اور حسن روحانی جیسے لوگ جو کبھی کبھی ان کے خلاف طنزیہ گفتگو کرنے سے باز نہیں آتے، رہبر کی موت کے بعد ان پر زیادہ کھل کر تنقید کریں گے۔

مصطفی دانشگر کے مطابق اگر دوسری جنگ نہیں ہوتی تو اس بات کا امکان ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلی، حسن روحانی کو ہٹانے کے لیے آج معاشرے میں جو دو گروہوں کا ماحول بنا ہوا ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔‘

مصطفی دانشگر اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ کوئی بحث ہو گی کیونکہ بحث جوہری مذاکرات کے تکنیکی پہلوؤں پر ختم نہیں ہوگی اور اس معاملے میں خامنہ ای کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے اور ’ان کی طرف سے ایسے سوالات اٹھائے جائیں گے جو حکومت کی نظر میں ممنوع یا ناپسندیدہ ہیں۔‘

وسیع تر نقطہ نظر سے حکومت کی اندرونی کشمکش اسلامی جمہوریہ ایران اور مغرب کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشمکش کی عکاسی کرتی ہے۔

ایک ایسا تنازع جو ابھی تک حل نہیں ہوا اور 12 روزہ جنگ کے بعد ایرانی حکومت کو ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا کر دیا تاکہ جوہری پروگرام کے خلاف مغربی اتفاق رائے اور بنیادی طور پر مغرب کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کر سکے۔

ایسا لگتا ہے کہ جب تک ایک فریق دوسرے پر غالب نہیں آتا حسن روحانی، مغرب کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی علامت کے طور پر قدامت پسندوں کی توجہ کا مرکز بنے رہیں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US