چین کے ’پانچ سالہ منصوبے‘ جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا

یہ کہنا مشکل ہے کہ چین نے کب اپنی معیشت کو طاقتور بنانے کا سفر شروع کیا، لیکن پارٹی کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ 18 دسمبر سنہ 1978 کو لیا گیا۔
چین
AFP via Getty Images
چین کی ترقی پانچ سالہ منصوبوں کی مرہون منت ہے

رواں ہفتے چین کے رہنما بیجنگ میں اکھٹے ہو رہے ہیں تاکہ بقیہ دہائی کے لیے ملک کے اہم اہداف اور خواہشات کو طے کریں۔

ہر سال یا پھر وقفے وقفے سے چین کی سیاسی قیادت، یعنی چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی، ایک ہفتے کے اجلاس کے لیے جمع ہوتی ہے جسے ’پلینیم‘ کہا جاتا ہے۔

اس بار ہونے والے پلینم میں لیا جانے والا فیصلہ 2026 سے 2030 تک چین کی معیشت کے لیے رہنما خاکہ فراہم کرے گا، جسے اگلا پانچ سالہ منصوبہ کہا جاتا ہے اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت اسی منصوبے کے تحت آگے بڑھے گی۔

اگرچہ مکمل منصوبہ اگلے سال پیش کیا جائے گا، لیکن امکان ہے کہ بدھ کے روز اس کے کچھ نکات کی جانب اشارہ دیا جائے گا۔ ماضی میں بھی اسی طرح تفصیلات سامنے لائی جاتی رہی ہیں۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ میں چینی سیاست کے ماہر نیل تھامس کہتے ہیں: ’مغربی ممالک میں پالیسی سازی انتخابات کے گرد گھومتی ہے، لیکن چین میں یہ منصوبہ بندی کے ادوار پر مبنی ہوتی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پانچ سالہ منصوبے یہ واضح کرتے ہیں کہ چین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، قیادت کس سمت جانا چاہتی ہے، اور ریاستی وسائل کو ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے متحرک کیا جاتا ہے۔‘

ظاہری طور پر، سوٹ بوٹ میں ملبوس بیوروکریٹس کے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور منصوبے بنانے کا عمل شاید سادہ لگے، لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان فیصلوں کے عالمی اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔

یہاں ہم تین ایسے مواقع کا ذکر کر رہے ہیں جب چین کے پانچ سالہ منصوبوں نے عالمی معیشت کو بدل کر رکھ دیا۔

چین صدر ڈینگ شیاؤ پنگ نے چین کے دروازے دنیا کے لیے کھولے
Getty Images
چین صدر ڈینگ شیاؤ پنگ نے چین کے دروازے دنیا کے لیے کھولے، یہاں انھیں امریکی صدر جمی کارٹر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے

1981-84: اصلاحات اور دنیا کے لیے دروازہ کھولنا

یہ کہنا مشکل ہے کہ چین نے کب اپنی معیشت کو طاقتور بنانے کا سفر شروع کیا، لیکن پارٹی کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ 18 دسمبر سنہ 1978 کو لیا گیا۔

تقریباً تین دہائیوں تک چین کی معیشت ریاست کے سخت کنٹرول میں تھی۔ لیکن سوویت طرز کی مرکزی منصوبہ بندی خوشحالی لا سکی نہ ہی عوام غربت سے باہر نکل سکی۔

ملک اب بھی ماؤ زے تنگ کے دورِ حکومت کی تباہ کاریوں سے سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’گریٹ لیپ فارورڈ‘ اور ’ثقافتی انقلاب‘ جیسے اقدامات، جو چین کی معیشت اور معاشرے کو نئی شکل دینے کے لیے شروع کیے گئے تھے، کروڑوں اموات کا باعث بنے۔

بیجنگ میں 11ویں کمیٹی کے تیسرے پلینیم میں ملک کے نئے رہنما ڈینگ شیاو پنگ نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ آزاد منڈی کے کچھ اصولوں کو اپنایا جائے۔

اور پھر ’اصلاحات اور کھلے پن‘ کی پالیسی اگلے پانچ سالہ منصوبے کا لازمی حصہ بنی، جو 1981 میں شروع ہوا۔

خصوصی اقتصادی زونز کے قیام اور غیر ملکی سرمایہ کاری نے چینی عوام کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ نیل تھامس کے مطابق، اس منصوبے کے مقاصد مکمل طور پر حاصل کیے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آج کا چین اُن خوابوں سے بھی بڑا ہے جو 1970 کی دہائی میں لوگ دیکھ سکتے تھے، چاہے بات قومی وقار کی ہو یا عالمی طاقتوں میں اپنی جگہ بنانے کی۔‘

لیکن اس تبدیلی نے عالمی معیشت کی ساخت کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ 21ویں صدی کے آغاز تک مغربی ممالک کی لاکھوں مینوفیکچرنگ نوکریاں چین کے ساحلی شہروں میں قائم نئی فیکٹریوں کو منتقل ہو چکی تھیں۔

معاشی ماہرین اسے ’چائنا شاک‘ یعنی ’چین کا جھٹکا‘ کہتے ہیں، اور یہ یورپ اور امریکہ کے صنعتی علاقوں میں عوامی مقبولیت رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ابھرنے کا ایک بڑا سبب بنا۔

مثال کے طور پر، ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسی، جن میں محصولات (ٹیرِف) اور تجارتی جنگ شامل تھیں، اسی مقصد کے تحت متعارف کروائی گئیں کہ امریکی فیکٹریوں کی نوکریاں واپس لائی جا سکیں جو گزشتہ دہائیوں میں چین کو منتقل ہو چکی تھیں۔

2011-15: سٹریٹجک ابھرتی ہوئی صنعتیں

جب چین نے 2001 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اختیار کی تو دنیا کی فیکٹری کے طور پر اس کی حیثیت مزید مضبوط ہو گئی۔ لیکن اسی وقت چین کی قیادت اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔

انھیں خطرہ تھا کہ چین ’درمیانی آمدنی کے جال‘ کا شکار نہ ہو جائے۔ یہ صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی ابھرتی ہوئی معیشت کم تنخواہوں کا فائدہ کھو دیتی ہے لیکن اعلیٰ معیار کی مصنوعات یا خدمات تیار کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔

لہٰذا صرف سستی مینوفیکچرنگ پر انحصار کرنے کے بجائے، چین کو ’سٹریٹجک ابھرتی ہوئی صنعتیں‘ تلاش کرنا تھیں۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے سنہ 2010 میں سرکاری سطح پر استعمال ہوئی۔ چین کے رہنماؤں کے نزدیک اس کا مطلب گرین ٹیکنالوجی، جیسے کہ الیکٹرک گاڑیاں اور سولر پینلز تھے۔

جب ماحولیاتی تبدیلی مغربی سیاست میں ایک اہم مسئلہ بننے لگی، تو چین نے ان نئی صنعتوں میں بے مثال وسائل لگانا شروع کیے۔

آج چین نہ صرف قابلِ تجدید توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں میں عالمی لیڈر ہے بلکہ ان میں استعمال ہونے والے نایاب معدنیات کی فراہمی پر بھی اس کا تقریباً مکمل کنٹرول ہے۔

یہ نایاب معدنیات چِپ بنانے اور مصنوعی ذہانت کے لیے بھی ضروری ہیں، اس لیے ان پر چین کا کنٹرول اسے عالمی سطح پر ایک طاقتور پوزیشن عطا کرتا ہے۔

یہاں تک کہ جب حال ہی میں بیجنگ نے ان معدنیات کی برآمد پر پابندیاں سخت کیں تو ٹرمپ نے اسے ’دنیا کو یرغمال بنانے کی کوشش‘ قرار دیا۔

اگرچہ ’سٹریٹجک ابھرتی ہوئی قوتیں‘ 2011 کے پانچ سالہ منصوبے کا حصہ بنیں، لیکن گرین ٹیکنالوجی کو سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہی اس وقت کے چینی رہنما ہو جِن تاؤ نے معاشی ترقی اور عالمی طاقت کا ذریعہ قرار دے دیا تھا۔

نیل تھامس وضاحت کرتے ہیں کہ ’چین کا اپنی معیشت، اپنی ٹیکنالوجی، اور اپنے فیصلوں کی آزادی میں زیادہ خود کفیل ہونے کا جذبہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ یہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی نظریاتی بنیادوں میں شامل ہے۔‘

چین کی معاشی ترقی ان کے منصوبوں کی مرہون منت ہے
Getty Images
چین کی معاشی ترقی ان کے منصوبوں کی مرہون منت ہے

2021-2025: ’اعلیٰ معیار کی ترقی‘

اور شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کے پانچ سالہ منصوبے ’اعلیٰ معیار کی ترقی‘ پر زور دے رہے ہیں، جسے شی جن پنگ نے سنہ 2017 میں باقاعدہ طور پر متعارف کروایا۔

اس کا مقصد امریکی ٹیکنالوجی کی بالادستی کو چیلنج کرنا اور چین کو اس شعبے میں سب سے آگے لے جانا ہے۔

مقامی سطح پر ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک، ٹیلی کمیونیکیشن کی بڑی کمپنی ہواوے، اور مصنوعی ذہانت کا ماڈل ڈیپ سیک وغیرہ اس کی کامیاب مثالیں ہیں۔ یہ سب اس بات کے شاہد ہیں کہ 21ویں صدی میں چین نے ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست ترقی کی ہے۔

لیکن مغربی ممالک اب اسے اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چینی ٹیکنالوجی پر پابندیاں یا ان پر پابندی کی کوششیں لاکھوں انٹرنیٹ صارفین کو متاثر کر چکی ہیں اور اس سے سخت سفارتی تنازعات بھی جنم لے چکے ہیں۔

اب تک چین نے اپنی کامیابیوں میں امریکی اختراعات مثلا اینویڈیا کی جدید سیمی کنڈکٹر چِپس پر انحصار کیا ہے۔

لیکن چونکہ اب امریکہ نے چین کو ان چِپس کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے اس لیے توقع ہے کہ ’اعلیٰ معیار کی ترقی‘ کا تصور بدل کر ’نئے معیار کی پیداواری قوتیں‘ بن جائے گا۔ یہ ایک نیا نعرہ ہے جو شی جن پنگ نے 2023 میں پیش کیا، جس میں زیادہ زور قومی افتخار اور قومی سلامتی پر دیا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار کیے بغیر چین چِپ سازی، کمپیوٹنگ، اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں صفِ اول پر ہو اور وہ ہر قسم کی پابندیوں سے محفوظ رہے۔

ہر شعبے میں خود کفالت، خاص طور پر جدید ترین ٹیکنالوجی میں، اگلے پانچ سالہ منصوبے کا ایک مرکزی اصول بننے کا امکان ہے۔

نیل تھامس کے مطابق: ’قومی سلامتی اور ٹیکنالوجی میں خود مختاری اب چین کی معاشی پالیسی کا بنیادی مشن بن چکی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ سب ایک بار پھر اُس قوم پرستی پر مبنی منصوبے سے جُڑا ہے جو چین میں کمیونزم کی بنیاد ہے، تاکہ چین دوبارہ کبھی بیرونی طاقتوں کے زیرِ اثر نہ آئے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US