پٹاخے کہاں سے آئے؟ بانس کے دھماکے سے آتش بازی کا ’پرفیکٹ بلیو‘ رنگ بننے تک کا سفر

تاریخ دان ڈاکٹر ٹونیو اینڈریڈ نے اپنی کتاب ’دی گن پاؤڈر ایج‘ میں لکھا ہے کہ بارود کی ایجاد چین میں ہوئی اور انھوں نے جلد ہی اسے فوج کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔
انڈیا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پٹاخوں کے ساتھ جشن منایا جاتا ہے۔
Getty Images
انڈیا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پٹاخوں کے ساتھ جشن منایا جاتا ہے

آتش بازی اور پٹاخوں کا استعمال جشن اور خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ انڈیا میں دیوالی کے دوران ملک کے کئی حصوں میں رات کا آسمان آتش بازی کی روشنی سے چمک جاتا ہے۔

لیکن آتش بازی کی یہ روایت صرف انڈیا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں لوگ جشن مناتے وقت پٹاخوں کا استعمال کرتے ہیں۔

امریکہ میں 4 جولائی یعنی یومِ آزادی کے موقع پر ملک بھر میں آتش بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کینیڈا یکم جولائی کو کینیڈا ڈے مناتا ہے، جبکہ فرانس 14 جولائی کو باسٹیل ڈے مناتا ہے، اس کے بعد پریڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

چین اور بہت سے ایشیائی ممالک میں نئے قمری سال کے دوران خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور لاکھوں پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں۔ میکسیکو میں بھی کرسمس کا جشن آتش بازی سے منایا جاتا ہے۔

لیکن اس رنگین آتش بازی کی کہانی ان ممالک میں منائے جانے والے جشن سے نہیں شروع ہوئی۔۔۔ اس کا آغاز چین سے ہوا جہاں بارود کی دریافت کے ساتھ آتش بازی کا جنم ہوا۔

تاریخ دان ڈاکٹر ٹونیو اینڈریڈ نے اپنی کتاب ’دی گن پاؤڈر ایج‘ میں لکھا ہے کہ بارود کی ایجاد چین میں ہوئی اور انھوں نے جلد ہی اسے فوج کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

بعد ازاں سفر اور تجارت کے ذریعے بارود انڈیا، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچا اور اسے خاص مواقع اور تہواروں پر استعمال کیا جانے لگا۔

آئیے جانتے ہیں پٹاخوں اور آتش بازی کی تاریخ اور حال سے متعلق پانچ اہم باتیں۔

آتش بازی کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟

دیوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں۔
Getty Images
دیوالی کے موقع پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں

خیال کیا جاتا ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح میں چین میں لوگ بانس کے ٹکڑوں کو آگ میں ڈال دیتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے جب بانس کے اندر ہوا پھیل جاتی تو وہ زوردار آواز سے پھٹ جاتا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ اونچی آواز شیطانی روحوں کو دور کر دے گی۔

کئی سو سال بعد چینی کیمیا دانوں نے غلطی سے بارود دریافت کر لیا۔ جب اس بارود کو بانس یا کاغذ کے ٹیوبوں میں بھرا گیا تو اس نے دھماکے اور روشنی پیدا کی۔ اس سے آتش بازی کا آغاز ہوا۔

رفتہ رفتہ یہ فن چین سے یورپ تک پھیل گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ نئی تکنیکیں شامل کی گئیں اور پٹاخے زیادہ رنگین، اونچے اور بلند ہوتے گئے۔

آج پٹاخے محض تفریح ​​کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ تہواروں، شادیوں اور تقریبات کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔

اس کے علاوہ اب ماحولیاتی اور صحت کے نقطہ نظر سے محفوظ اور گرین پٹاخے بھی تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ تفریح ​​کے ساتھ ساتھ حفاظت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

آتش بازی کے رنگ کیسے بنتے ہیں؟

بہت سے پٹاخے پھٹتے ہی مختلف رنگ دیتے ہیں
Getty Images
بہت سے پٹاخے پھٹتے ہی مختلف رنگ دیتے ہیں

جب ہم پٹاخے پھوڑتے ہیں تو آسمان پر بہت سے رنگ نظر آتے ہیں اور نظارہ خوبصورت نظر آتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ رنگ کیسے بنتے ہیں؟

ان پٹاخوں کی تیاری میں متعدد کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں۔ جب پٹاخہ جلتا ہے تو یہ کیمیکل گرم ہوتے ہیں اور مختلف رنگوں کی روشنی خارج کرتے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں پٹاخوں کا کوئی رنگ نہیں تھا۔ جب بارود جلتا تھا، تو اس سے نارنجی رنگ کی روشنی نکلتی تھی جو اندھیرے میں روشنی پیدا کر دیتی تھی۔

19 ویں صدی میں یورپی سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ آتش بازی میں مختلف دھاتوں پر مبنی مرکبات شامل کرکے وہ رنگین روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر سرخ روشنی سٹرونٹیئم کے آمیزے سے سبز روشنی بیریم کو ملا کر اور سفید روشنی ٹائٹینیم، زرکونیم اور میگنیشیم کو ملا کر پیدا ہوتی ہے۔

نیلے رنگ کو حاصل کرنا مشکل ترین عمل سمجھا جاتا ہے۔ نیلا تانبے سے بنایا جاتا ہے لیکن اگر درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جائے تو رنگ غائب ہو جاتا ہے اور اگر یہ کم رہے تو بالکل نہیں بنتا۔

یہی وجہ ہے کہ ’پرفیکٹ بلیو‘ اب بھی پائروٹیکنک ماہرین کے لیے ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے۔

سب سے زیادہ آتش بازی کا سامان کون خریدتا ہے؟

والٹ ڈزنی کمپنی دنیا میں آتش بازی کی سب سے بڑی خریدار سمجھی جاتی ہے۔
Getty Images
والٹ ڈزنی کمپنی دنیا میں آتش بازی کی سب سے بڑی خریدار سمجھی جاتی ہے۔

والٹ ڈزنی کمپنی دنیا میں آتش بازی کے سامان کی سب سے بڑی خریدار سمجھی جاتی ہے۔

ڈزنی مبینہ طور پر دنیا بھر میں اپنے تھیم پارکس میں رات کے وقت آتش بازی کے شوز کو جاری رکھنے کے لیے آتش بازی پر سالانہ تقریباً 50 ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔

گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق 2016 کے نئے سال کی شام کی تقریبات کے دوران فلپائن کے چرچ آف کرائسٹ میں اب تک کا سب سے بڑا آتش بازی کا مظاہرہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اس شو میں ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں کل 8,10,904 پٹاخے پھوڑے گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے ڈسپلے کے دوران مسلسل بارش ہوتی رہی لیکن رکنے کے بجائے آتش بازی اور بھی شاندار دکھائی دی۔

انڈیا میں پٹاخوں کا آغاز کیسے شروع ہوا؟

انڈیا میں پٹاخوں کا استعمال بہت عام ہے۔
Getty Images
انڈیا میں پٹاخوں کا استعمال بہت عام ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں پٹاخوں کا رجحان بارود کی آمد سے شروع ہوا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کے ہندوستان کی تاریخ پڑھانے والے پروفیسر سید علی ندیم رضوی نے بی بی سی ہندی کے نامہ نگار افتخار علی سے بات چیت میں کہا کہ یہ پورا سلسلہ 15ویں صدی کے آس پاس شروع ہوا۔

یہ وہ دور تھا جب پرتگالی ہندوستان آئے تھے۔ ان کے دور میں بارود کا بطور ہتھیار استعمال بڑھ گیا۔

پروفیسر رضوی کے مطابق ’ابتدائی طور پر بارود کا استعمال صرف فوج میں ہوتا تھا، رفتہ رفتہ ہندوستان نے چنگاری بنانے کی تکنیک چین سے سیکھی اور ان دونوں کو ملا کر یہاں پٹاخوں کی بنیاد پڑی۔‘

پروفیسر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر بھی وسطی ایشیا سے یہ تکنیک سیکھنے کے بعد آئے تھے۔

بابر نے اسے ہتھیاروں میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا اور ہندوستان میں پٹاخوں کا استعمال بھی متعارف کرایا۔

بعد ازاں مغلیہ دور میں تہواروں اور تقریبات میں پٹاخوں کا استعمال عام ہوگیا۔

پروفیسر رضوی ماضی اور آج کے پٹاخوں میں فرق بھی بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے پٹاخوں میں صرف نامیاتی مواد استعمال کیا جاتا تھا۔ آج مارکیٹ میں دستیاب پٹاخوں میں بہت سے کیمیکل ہوتے ہیں، جو نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کی جانے والی آتش بازی کی وجہ سے آج کی طرح کے حادثات نہیں ہوتے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ مکمل طور پر محفوظ نہیں تھے لیکن کیمیکلز کا استعمال محدود تھا۔

ماحول اور ہماری صحت کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیوالی اور کسی دوسرے تہوار کے موقع پر گرین پٹاخوں کے استعمال کی سفارش کی جاتی ہے۔

گرین کریکرز

عام پٹاخوں کے مقابلے میں یہ جلانے پر تقریباً 40 سے 50 فیصد کم نقصان دہ گیسیں خارج کرتے ہیں۔
Getty Images
عام پٹاخوں کے مقابلے میں یہ جلانے پر تقریباً 40 سے 50 فیصد کم نقصان دہ گیسیں خارج کرتے ہیں۔

گرین گریکرز یا سبز پٹاخے عام پٹاخوں کی طرح نظر آتے، جلتے اور آواز دیتے ہیں، لیکن یہ کم آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔

عام پٹاخوں کے مقابلے میں یہ جلانے پر تقریباً 40 سے 50 فیصد کم نقصان دہ گیسیں خارج کرتے ہیں۔

نیشنل انوائرمنٹل انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سادھنا رائالو کا کہنا ہے کہ سبز پٹاخے بھی نقصان دہ گیسیں خارج کرتے ہیں لیکن ان سے آلودگی کی سطح روایتی پٹاخوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

ان کے مطابق جب باقاعدہ پٹاخے جلتے ہیں تو نائٹروجن اور سلفر جیسی گیسیں بڑی مقدار میں خارج ہوتی ہیں۔ سبز پٹاخوں پر ان کی تحقیق کا مقصد ان نقصان دہ عناصر کی مقدار کو کم کرنا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US