سنجے دت نے کھل نائیک، واسـتو اور منّا بھائی ایم بی بی ایس جیسی فلموں میں اپنی شاندار اداکاری کے ذریعے ہندی سنیما میں ایک منفرد مقام پیدا کیا، جو ان کی غیر معمولی صلاحیت اور دیرپا مقبولیت کی عکاسی کرتی ہیں۔

اکثر لوگ سنجے دت کو بالی وڈ کے اداکار کے طور پر جانتے ہیں مگر یہ لفظ ان کی شخصیت کے تمام تر پہلوؤں کو بیان نہیں کر پاتا۔
سنہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے سنجے دت صرف ایک فلمی ستارہ نہیں بلکہ بغاوت، نرمی اور پُر کشش شخصیت کی ایک علامت بھی ہیں۔
انھیں بالی وڈ کا ’ال پچینو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ال پچینو سے انھیں اس وجہ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ سنجے دت نے خود اس بات کا اظہار کر رکھا ہے کہ وہ ہالی وڈ کے اس بڑے اداکار سے بے انتہا متاثر ہیں۔
سنجے دت نے کھل نائیک، واسـتو اور منّا بھائی ایم بی بی ایس جیسی فلموں میں اپنی شاندار اداکاری کے ذریعے ہندی سنیما میں ایک منفرد مقام پیدا کیا، جو ان کی غیر معمولی صلاحیت اور دیرپا مقبولیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
سنجے دت کی زندگی کی عکاسی فلم ’سنجو‘ کا ٹریلر ہی کرتا ہے یعنی ’اپنی لائف کبھی اپ کبھی ڈاؤن، ڈرگز لیا، مہنگے ہوٹلوں میں رہا، جیل میں بھی رہا، گھڑیاں بھی پہنی اور ہتھکڑیاں بھی، تین سو آٹھ گرل فرینڈز تھیں اور ایک اے کے 56 رائفل۔‘
یہی بالی وڈ کے اس بڑے اداکار سنجے دت کی اصلی کہانی ہے۔
انڈیا کے مشہور پبلک پراسیکیوٹر اجول نکم نے سنہ 1993 کے ممبئی بم دھماکوں سے لے کر سنجے دت اور ممبئی انڈر ورلڈ کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے مقدموں میں حکومت کی نمائندگی کی۔ حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں سنجے دت سے متعلق کیس کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔
انھوں نے کہا کہ سنجے دت کو سنہ 1993 کے ممبئی دھماکوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ نکم کے مطابق سنجے دت کو صرف ہتھیاروں کا شوق تھا۔
واضح رہے کہ 12 مارچ سنہ 1993 کو ممبئی میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے۔ اس کے بعد سنجے دت کو ابو سالم اور ریاض صدیقی سے غیر قانونی اسلحہ لینے اور اپنے پاس رکھنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
سنہ 2013 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے ٹاڈا عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور سنجے دت کو پانچ سال قید کی سزا سنائی۔
سنہ 2016 میں جیل سے رہا ہونے کے بعد سنجے دت نے میڈیا سے درخواست کی تھی کہ سنہ 1993 کے دھماکوں کے سلسلے میں اب ان کا ذکر نہ کیا جائے۔
ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں سنجے دت نے کہا تھا کہ ’میں دہشت گرد نہیں ہوں اور میں میڈیا سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے سنہ 1993 کے دھماکوں سے نہ جوڑیں۔‘
نکم ممبئی بم دھماکوں کے بعد فوجداری مقدمات میں سرکردہ سرکاری وکیل کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
اجول نکم متعدد ہائی پروفائل کیسز میں حکومت کی نمائندگی کر چکے ہیںیوٹیوب پر انٹرویو کے دوران اجول نکم نے کہا کہ ’ذاتی طور پر میں مانتا ہوں کہ وہ (سنجے دت) ہتھیاروں کے بہت دیوانے اور شوقین تھے، اسی لیے انھوں نے ایک اے کے 56 رائفل اپنے ساتھ رکھی تھی۔‘
’12 مارچ سے کوئی 15 یا 20 دن پہلے ابو سالم ایک ٹرک میں ہتھیار لے کر آئے تھے۔ جنھیں سنجے دت نے دیکھا اور ان میں سے ایک اے کے 56 اپنے پاس رکھ لی جبکہ باقی واپس کر دیں۔‘
اجول نکم نے کہا کہ ’جب سنجے دت کو پہلی بار ہتھیار ملے تھے تو انھیں پولیس کو بتانا چاہیے تھا کہ فلاں ٹرک میں ہتھیار آئے تھے جس میں آر ڈی ایکس اور ہینڈ گرنیڈ تھے۔ اگر وہ اتنا بھی بتا دیتے تو پولیس تحقیقات کر کے دھماکوں کو روک سکتی تھی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سنجے دت کے معاملے میں ان پر کبھی دباؤ ڈالا گیا؟ تو اس کے جواب میں نکم نے کہا کہ ’مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب میں یہ کیس لڑ رہا تھا تو عدالت نے انھیں آرمز ایکٹ کے تحت سزا سنائی تھی۔ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ یہ سنجے دت کا پہلا جرم تھا اس لیے انھیں اس کا فائدہ دیا جانا چاہیے تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اس دلیل کی مخالفت کی تھی جس کے بعد عدالت نے سنجے دت کے وکلا کی دلیل مسترد کردی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جہاں تک مُجھے یقین ہے ممبئی بم دھماکے میں سنجے دت کا کوئی براہِ راست کردار نہیں تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ سنجے دت کو معلوم بھی ہو گا کہ کیا ہونے والا ہے خاص طور پر یہ کہ بم دھماکے ہونے والے ہیں۔‘
’اجمل قصاب مقررہ وقت پر ممبئی پہنچتے تو ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوتی‘

نومبر سنہ 2008 میں ممبئی میں ایک بڑا دہشت گرد حملہ ہوا۔ سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان تین دن تک لڑائی جاری رہی اور صرف ایک دہشت گرد اجمل قصاب کو زندہ پکڑ لیا گیا تھا۔
اس کیس میں اجمل قصاب کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
قصاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے نکم نے کہا کہ ’انھیں یہ معلوم تھا کہ میں ہی اُن کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑ رہا ہوں۔ میں یہ بات تو جانتا تھا کہ قصاب نے اور اُن کے گینگ نے لوگوں کو مارا لیکن میرے لیے امتحان یہ تھا کہ میں نے یہ کیسے ثابت کرنا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔‘
نکم نے کہا کہ ’ممبئی میں اجمل قصاب نے شام ساڑھے چھ بجے پہنچنا تھا مگر ایسا مُمکن نہ ہوا اور خوش قسمتی سے انھیں پہنچنے میں تاخیر ہو گئی۔ اگر وہ اپنے مقررہ وقت پر ممبئی پہنچ جاتے تو ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی کیونکہ سی ایس ٹی ریلوے سٹیشن پر شام ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے سات بجے تک آنے اور جانے والوں کا بہت رش ہوتا ہے۔‘