سنہ 2018 میں جب عمران خان اقتدار میں آئے تو انھوں نےپاکستان کرکٹ سٹرکچر کو یکسر تبدیل کر دیا اور ڈیپارٹمنٹس کے بجائے ریجنل ٹیمیں سامنے لائے۔ جہاں یہ اقدام کئی کرکٹرز کےلیے نقصان دہ ٹھہرا، وہیں اس سے نعمان علی کو فائدہ ہوا۔

کراچی سے لگ بھگ تین سو کلومیٹر کی مسافت پہ واقع کھپرو ضلع سانگھڑ کی ایک تحصیل ہے جہاں کرکٹ کا کچھ خاص رجحان نہیں تھا۔ اسی دور افتادہ شہر میں، جب نعمان علی نے آنکھ کھولی تو اپنی زندگی کے پہلے چودہ برس تک ان کا کرکٹ سے زیادہ تعلق نہ رہا۔
مگر چونتیس برس کی عمر میں، نعمان علی نہ صرف پاکستان کے لیے ڈیبو کرنے والے معمر ترین کرکٹرز کی فہرست میں شامل ہوئے بلکہ اب وہ اس الیون کا اٹوٹ انگ بن چکے ہیں اور ہوم ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی فتوحات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اپنی عمر کے چالیسویں سال میں داخل ہونے کے بعد بھی نعمان علی نہ صرف آئی سی سی رینکنگ چارٹ میں اپنی موجودگی کا پتہ دے رہے ہیں بلکہ پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں ہیٹ ٹرک پانے والے بھی اولین سپنر ہیں اور فی اننگز پانچ وکٹوں کے اعزازات میں لیجنڈری لیگ سپنر عبدالقادر کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
’حیدر آباد ٹرانسفر نے فاسٹ بولر کو سپنر بنا دیا‘
کھپرو میں نعمان کا کرکٹ سے تعلق صرف ٹیپ بال کی حد تک رہا جہاں وہ فاسٹ بولنگ کرتے اور اپنی بیٹنگ سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ بعد ازاں جب ان کے والد اپنیملازمت کے سلسلے میں کھپرو سے حیدرآباد منتقل ہو گئے تو یہاں اپنے ماموں رضوان احمد کے ہمراہ نعمان نے مسابقتی کرکٹ کا آغاز کیا۔
یہاں اُنھیں نیاز سٹیدیم حیدرآباد کا بہتر انفراسٹرکچر میسر تھا اور وہ مقامی ٹیمفضل الرحمن کرکٹ کلب سے وابستہ ہو گئے۔نعمان اکیلے ہی مسابقتی کرکٹ تک پہنچ پائے گو کہ ان کے باقی سبھی بھائی بھی ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے تھے۔
نعمان نے کرکٹ بطور فاسٹ بولر شروع کی مگر آہستہ آہستہ وہ سپن کی طرف مائل ہوئے کیونکہ حیدرآباد کی خشک کنڈیشنز سپن کے لیے زیادہ سازگار تھیں اور نعمان نے ان کنڈیشنز کا استعمال سیکھنا شروع کیا۔

’بیک اپ آپشن سے ریجن کی کپتانی تک‘
سنہ 2018 میں جب عمران خان اقتدار میں آئے تو انھوں نےپاکستان کرکٹ سٹرکچر کو یکسر تبدیل کر دیا اور ڈیپارٹمنٹس کے بجائے ریجنل ٹیمیں سامنے لائے۔ جہاں یہ اقدام کئی کرکٹرز کے لیے نقصان دہ ٹھہرا، وہیں اس سے نعمان علی کو فائدہ ہوا۔
اردو کرکٹ کمنٹیٹر طارق سعید ڈومیسٹک سرکٹ میں قریب سولہ برس سے نعمان علی کو دیکھتے آ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں نعمان نے اپنا مقام بنانے کے لیےبہت جتن کیے۔
’ان کا بریک تھرو سال 2019تھا جب چھ ٹیمیں آئیں۔ حیدرآباد کی ٹیم ختم ہو گئی، سندھ کی ٹیم میں بھی ان کی جگہ نہیں بنی۔ پھر یہ ناردرن کی ٹیم میں آ گئے۔‘
ناردرن کے سکواڈ میں بھی جب نعمان علی کو جگہ دی گئی تو وہ ترجیحی کھلاڑی نہیں تھے بلکہ کپتان عماد وسیم کے لیے بیک اپ کے طور پہ آئے تھے۔
طارق سعید کے مطابق، ’عماد کپتان تھے تب نعمان کو نہیں کھلایا گیا۔ پھر عمر امین کپتان بن گئے تو نعمان کو موقع ملا۔ سیزن کے اینڈ تک یہ خود کپتان بن چکے تھے۔‘
’وہ سیزن کے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر تھے۔ اسی کی بدولت ناردرن کی ٹیم فائنل میں پہنچی۔ حالانکہ ان کی بولنگ سب سے کمزور تھی اور کوئی مستند کھلاڑی نہیں تھا اس ٹیم میں۔‘
’ماموں بھانجا کی مؤثر جوڑی‘
نعمان علی میں اپنے گھر کا ماحول دیکھ کر کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کے ماموں رضوان احمد فرسٹ کلاس آل راؤنڈر تھے اور اُنھوں نے پاکستان کے لیے ایک ون ڈے میچ بھی کھیلا۔
طارق سعید کے مطابقسنہ 2008 کے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں دونوں ماموں بھانجا ’حیدرآباد ہاکس‘ کےلیے کھیلتے تھے اور آل راؤنڈرز کی ایک موثر جوڑی سمجھے جاتے تھے۔
رضوان احمد ہی نعمان کو کے آر ایل کی ٹیم میں لے کر آئے جہاں سے ان کا فرسٹ کلاس کریئر صحیح معنوں میں شروع ہوا۔ سنہ 2009 میں سعید اجمل کے آر ایل چھوڑ کر زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیم میں چلے گئے تھے اور ٹیم کو ایک مستند سپنر کی ضرورت تھی۔
کوچ عرفان بھٹی کے مطابق نعمان جب ان کے پاس آئے تو ان کی بولنگ میں کچھ یکسانیت تھی۔
’ان کا گیند اندر آتا تھا مگر زیادہ بریک نہیں ہوتا تھا۔ اس پہ ہم نے کام کیا۔ یہ خود بہت محنتی ہیں، اُنھوں نے خود اپنی بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ پہ بہت کام کیا ہے۔‘
ڈومیسٹک کرکٹ میں نعمان علی، خان ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کی ٹیم میں تھے۔ سنہ 2009 میں کے آر ایل کا حصہ بننے کے بعد اگلے دس برس تک وہ اسی کا حصہ رہے اور 21.66 کی اوسط سے 145 وکٹیں حاصل کی۔
کے آر ایل میں نعمان علی کیکوچنگکرنے والے عرفان بھٹی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ نعمان کو پاکستان کے لیے کھیلنے کا چانس بہت دیر سے ملا۔
’میرے خیال میں 2013 کی بات ہے جب اُنھوں نے بہت اچھا پرفارم کیا۔ ہم (کے آر ایل) سلور (کیٹیگری) میں تھے، اسی سیزن ہم سلور سے گولڈ میں گئے، گولڈ سے پھر سپر ایٹ میں گئے اور ٹاپ تھری میں ہم نے فنش کیا۔‘

’نو سلیکشن، نو مایوسی‘
کے آر ایل کی بولنگ کا زیادہ انحصار پیس پہ تھا، اس کے کور بولنگ گروپ میں یاسر عرفات، راحت علی اور محمد عباس جیسے نام شامل تھے۔ ایسے میں نعمان ہر میچ کے لیے آٹومیٹک انتخاب نہیں ہوتے تھے۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کوچ عرفان بھٹی کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم فاسٹ بولنگ پہ زیادہ انحصار کرتی تھی، ’ہمارے پاس زیادہ تر فاسٹ بولر ہی تھے، پچز اچھی ہوتی تھیں تو سپنرز کم ہی کھیلتے تھے۔‘
یہی وجہ ہے کہ دس سال تک کے آر ایل کا حصہ رہنے کے باوجود نعمان نے بہت سارے میچز بینچ پہ گزارے۔ مگر بطور کرکٹر نعمان کی خاصیت ہی ان کا تسلسل اور محنت ہے جس کے بل پہ وہ مایوسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔
سابق چیف سلیکٹر اقبال قاسم پاکستان کے نامی لیفٹ آرم سپنر رہے ہیں اور نعمان علی کے آئیڈل بھی ہیں۔ اقبال قاسم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ نعمان کی خاص بات ان کی محنت اور مستقل مزاجی ہے۔
’جب ہم سلیکشن کمیٹی میں تھے تو پلئیرز کو دیکھنے جاتے، تبھی میں نے حیدرآباد میں انھیں (کھیلتے) دیکھا۔ کبھی ان سے کوئی گلہ شکوہ نہیں سنا کہ سلیکٹ کیوں نہیں کیا گیا۔‘
’یہ سلیکٹ نہیں بھی ہوئے تو مایوس نہیں ہوئے۔ یہ سب کرکٹرز کےلیے ایک مثال ہے کہ چانس نہ بھی ملے تو کھیلتے رہیں۔ محنت اپنا پھل ضرور دیتی ہے۔‘
’نائٹ واچ مین کیسے؟ وہ تو مکمل بیٹسمین ہے‘
اگرچہ عالمی کرکٹ میں نعمان کی شہرت ایک تباہ کن سپنر کی ہے مگر ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ ہمیشہ بطور آل راؤنڈر ہی کھیلے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بی بی سی اردو نے ان کے ڈومیسٹک کوچ سے بات کی تو ان کی پہلی یادداشت ہی نعمان کی بیٹنگ کے حوالے سے تھی۔
اُن کے بقولوہ’مڈل آرڈر میں بیٹنگ بہت اچھی کرتے تھے۔ کون کون سا میچ یاد کرواؤں آپ کو؟ قائداعظم ٹرافی کے کتنے ہی میچز اُںھوں نے جتوائے۔‘
ذہن پہ زور دیتے ہوئے عرفان بھٹی 2013 کے سیزن کو یاد کرتے ہیں جہاں کراچی کے خلاف بحران میں پڑی ان کی ٹیم کو نعمان کی بیٹنگ نے بچا لیا۔
’کراچی کے خلاف ہمکھیل رہے تھے اور ہماری بیٹنگ خاص چلی نہیں۔ یہ (نعمان) نیچے کے نمبر پہ گیا اور نیچے سے جا کر اس نے وہاں 87 (رنز) کر دیے۔ پھر (بولنگ میں) ان کے چار آؤٹ بھی کر دیے اور ہم میچ جیت گئے۔'
اسی حوالے سے طارق سعید بھی ایک واقعہ یاد کرتے ہیں کہ جب مصباح الحق پاکستان کے ہیڈ کوچ تھے، تب ایک میچ کے آخری سیشن میں پاکستان نے ایک نائٹ واچ مین بھیجا اور وہ جلدی آؤٹ ہو گیا۔
پریس کانفرنس میں مصباح سے کسی نے پوچھا کہ بجائے کسی اور کے، نعمان علی کو نائٹ واچ مین کیوں نہ بھیجا گیا، جس پہ مصباح نے نہایت سنجیدگی سے کہا، ’نائٹ واچ مین؟ نو وے۔۔۔ وہ تو ہمارا مکمل بیٹسمین ہے۔‘

’مصباح، سعید اجمل کے بعد ایک اور مثال‘
سالہا سال انتظار کے بعد بالآخر سنہ 2021 کے دورہِپاکستان پہ آئی جنوبی افریقہ کے خلاف انھیں منتخب کیا گیا اور اپنے ڈیبو پہ نعمان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ جنوبی افریقی کپتان کوئنٹن ڈی کوک تھے۔ یہیں انھوں نے اننگز میں پانچ وکٹیں لے کر ایک اور ڈیبو ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔
کوچ عرفان بھٹی جہاں ان کے تاخیری ڈیبو کو ’لیٹ چانس‘ قرار دیتے ہیں، وہیں کمنٹیٹر طارق سعید کے مطابق یہ ’دیر آید، درست آید‘ سا معاملہ ہے۔
’ہمارے ہاں عام طور پر پوٹینشل دیکھ کر کھلاڑیوں کو جلدی کھلا دیا جاتا ہے۔ نعمان کو چانس تو لیٹ ہی ملا مگر جب ٹیسٹ ٹیم میں آیا، تب تک یہ پورا تیار کھلاڑی تھا۔‘
طارق سعید اس ضمن میں نعمان علی کو ایک مثال قرار دیتے ہیں،’میرے خیال میں، مصباح اور سعید اجمل کے بعد یہ ایک بڑی مثال ہے جو عمر کے اس حصے میں ڈیبو کیا، جہاں کھلاڑی ریٹائر ہو رہے ہوتے ہیں۔‘
’صرف سپن پچز کا شیر نہیں‘
سابق لیفٹ آرم سپنر اقبال قاسم کے مطابق نعمان کی خاصیت ہے کہ وہ وکٹیں لینے کے پیچھے نہیں بھاگتے، لائن لینتھ اچھی رکھتے ہیں اور پچ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں نعمان صرف سپن پچز پہ وکٹیں لینے والا بولر نہیں ہے۔
’میرا تو مشورہ ہے کہ انھیں پاکستان سے باہر بھی کھلائیں۔ کیونکہ یہ اس طرح کے بولر ہیں جنھیں اچھی بیٹنگ وکٹ بھی مل جائے تو خود کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔‘
بطور مبصر سالہا سال نعمان کے کرئیر کو بہت قریب سے دیکھنے والے طارق سعید سمجھتے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ میں آنے کے بعد سے نعمان کی اٹھان غیر معمولی رہی ہے۔
’ڈومیسٹک (سرکٹ) میں اس کے بارے عمومی تصور تھا کہ یہ گیند کو فلائٹ نہیں دیتا۔ لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں آنے کے بعد اُنھوں نے اپنا کھیل اور بہتر کیا ہے۔ یہ جوں جوں کھیل رہے ہیں، نکھر رہے ہیں۔‘
گو سپنرز کےلیے عمر ویسا مخمصہ تو نہیں ہوتی جیسا فاسٹ بولرز کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سری لنکن سپنر رنگنا ہیرتھ بھی چالیس برس کی عمر تک کھیلتے رہے۔
نعمان نے بھلے اپنی انٹرنیشنل آمد تاخیر سے ڈالی ہو، مگر فٹنس کے جو معیارات وہ نبھاتے ہیں، بعید نہیں کہ وہ چار سال مزید بھی پاکستان کے لیے کھیل جائیں۔