انڈیا میں دلِتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ: ’اگر میں دلِت نہ ہوتا تو کیا مجھے پیشاب پینے پر مجبور کیا جاتا؟‘

لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے ایسے ہی تین کیسز گذشتہ 15 دنوں میں مدھیہ پردیش میں سامنے آئے ہیں۔ بھنڈ سے سامنے آنے والی تازہ مثال ریاست میں قانون کی عملداری پر سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دلت
Getty Images

انتباہ: اس خبر میں شامل تفصیلات کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

’انھوں نے مجھے بندوق کی نوک پر گاڑی میں بٹھایا۔ انھوں نے مجھ پر تشدد کیا اور ایک بوتل سے پیشاب پینے پر مجبور کیا۔ اگر میں دلِت نہ ہوتا تو کیا مجھے پیشاب پینے پر مجبور کیا جاتا؟‘

اپنی کہانی سُناتے ہوئے 33 سالہ گیان سنگھ زار و قطار رو رہے تھے۔

ان کی جانب سے پولیس کے پاس درج کروائی گئی شکایت کے مطابق انھیں 20 اکتوبر کر مدھیہ بردیش کے ضلع بھنڈ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا تھا۔

لوگوں کو ہراساں کیے جانے کے ایسے ہی تین کیسز گذشتہ 15 دنوں میں مدھیہ پردیش میں سامنے آئے ہیں۔ بھنڈ سے سامنے آنے والی تازہ مثال ریاست میں قانون کی عملداری پر سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

بی بی سی نے سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کیلاش مکوانہ سے واٹس ایپ اور فون پر متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب بھنڈ پولیس نے گیان سنگھ پر تشدد کے الزام میں سونو باروا، الوک شرما اور چھوٹو نامی تین افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

ضلع بھنڈ میں ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنجیو پاٹھک نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’ہم نے تشدد اور اغوا سے متعلق دفعات کے تحت افراد کو گرفتار کیا ہے اور انھیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں تحقیقات جاری ہیں اور پولیس کی ایک ٹیم شواہد جمع کرنے میں مصروف ہے۔‘

پولیس
Getty Images

دوسری جانب بھنڈ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں زیرِ علاج گیان سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ یہ واقعہ ان کے دلت ہونے کی وجہ سے پیش آیا ہے اور اس سے ان کا پورا خاندان متاثر ہو رہا ہے۔

یہ معاملہ ہے کیا؟

پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور گیان سنگھ کا دعویٰ ہے کہ قریب ہی واقع گاؤں کے رہائشی سونو باروا نے 18 اکتوبر کو انھیں بطور ڈرائیور کام کرنے کی پیش کش کی تھی۔

’وہ مجھے اپنی کار کے لیے ڈرائیور رکھنا چاہتے تھے لیکن میں ان کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرا گاؤں ان کے گاؤںسے آدھا کلومیٹر دور ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ لوگ جرائم پیشہ ہیں اور میں ان کے لیے کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ملازمت سے انکار کرنے پر انھیں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا اور بندوق کی نوک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ہسپتال سے رندھی ہوئی آواز میں فون پر بات کرتے ہوئے گیان سنگھ نے سوال کیا: ’میرا جرم کیا تھا؟ انھوں نے مجھ سے گاڑی چلانے کو کہا، میں نے انکار کر دیا۔ میں نے خوف کے سبب کار چلانے سے انکار کیا تھا، جس کے بعد انھوں نے مجھے گھر سے اغوا کیا، مجھ پر تشدد کیا اور مجھے پیشاب پینے پر مجبور کیا۔‘

جہاں اس واقعے کے بعد گیان سنگھ اور ان کے خاندان کی پریشانیوں میں تو اضافہ ہوا ہے، وہیں بھنڈ سے 500 کلومیٹر دور راج کمار چوہدری کا خاندان بھی صدمے کا شکار ہے۔

کٹنی میں مبینہ طور پر پیشاب پلانے کا ایک اور واقعہ

مدھیہ پردیش کے ضلع کٹنی کے رہائشی 26 سالہ دلت کسان راجکمار چوہدری کا بھی الزام ہے کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 13 اکتوبر کو انھوں نے حکومت کی زمین پر غیرقانونی کان کنی کے خلاف احتجاج کیا تھا اور اس کے نیتجے میں مائن آرپیٹر رام بہاری، گاؤں کے سربراہ رامنوج پانڈے اور پون پانڈے نے ان پر شدید تشدد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ: ’تشدد کے دوران مجھے لاتیں ماری گئیں، گاؤںکے سربراہ رامنوج پانڈے کے بیٹے پون پانڈے نے میرے چہرے پر پیشاب کیا۔ میری والدہ مجھے بچانے آئیں تو انھیں بھی بالوں سے پکڑ کا گھسیٹا گیا اور ذات پر مغلظات بکے گئے۔‘

کٹنی پولیس کے افسر ابھینو وشواکرما نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہم نے متاثرہ شخص کی شکایت پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ہم ملزمان میں سے کسی کو بھی پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں لیکن پولیس اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔'

مدھیہ پردیش میں مقیم وکیل نکیتا سوناوانے کہتی ہیں کہ ایسے واقعات میں احتساب نہ ہونے کے سبب ایسے جرائم رُک نہیں رہے۔

'بعض اوقات ملزمان کے خلاف درج مقدمات کو آپسی جھگڑے قرار دیا جاتا ہے، یا پھر متاثرین کے خلاف بھی مقدمات درج کر لیے جاتے ہیں۔'

مدھیہ پردیش میں سامنے آنے والا تیسرا واقعہ

اس سے قبل مدھیہ پردیش کے ضلع داموہ سے بھی ایسا ہی واقعہ رپورٹ ہوا تھا جہاں ایک دلت شخص کو ایک برہمن نوجوان کے پاؤں دھونے اور پانی پینے پر مجبور کیا گیا تھا۔

دلت شخص کے مطابق انھوں نے شراب کی ممانعت پر ایک تنازعے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

پولیس
Getty Images

اس واقعے کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ وہ کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’مجھے یہاں رہنا ہے۔ ایف آئی آر کٹوانے کے بعد میں کہاں جاؤں گا؟‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ انصاف تک رسائی کی راہ میں مشکلات ان واقعات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

بھوپال میں مقیم سوشل ورکر مادھوری اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ملک میں قوانین تو ہیں لیکن انصاف تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔

’جب آپ ان کیسز کی تہہ میں جائیں گے تو معلوم ہوگا کہ ملزمان کو کسی نہ کسی طریقے سے حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ تشدد کے یہ واقعات بار بار سامنے آتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US